عالمی سطح پر یہ بات طے شدہ ہے کہ ریاستوں کی آپس میں نہ دوستی ہوتی ہے اور نہ دشمنی۔ان کے صرف مفادات ہوتے ہیں۔بھارت اور امریکہ کی دوستی میں یہ بات واضح ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان باہمی تعلقات تجارتی مفادات سے منسلک ہیں ۔یہاں ایک اور بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ امریکہ کی دلچسپی کا اصل مرکز‘ جنوبی وسطی ایشیا کا پورا خطہ ہے ۔ امریکی ہر معاملے میں آمدن و خرچ کا حساب بڑے اہتمام سے رکھتے ہیں۔وہ کوئی ایسا کام نہیں کرتے ‘جس میں سرمایہ کاری زیادہ اورآمدن کم ہو۔بھارت اور امریکہ کے درمیان تجارتی معاہدوں پر نیا تنازعہ اس وقت پیدا ہوا‘ جب بھارت نے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (WTO)میں امریکہ کے خلاف ایلومینیم اور سٹیل کی مصنوعات پر عائد ڈیوٹی ٹیکسز کی شکایات کیں۔بھارت کے اس احتجاج کے بعد دونوں ممالک کا اجلاس بھی ہوا‘ مگر دونوں ملکوں کے وفود ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے ضابطہ اخلاق کو مدنظر رکھتے ہوئے‘ اس مسئلے کا خاطر خواہ حل تلاش نہ کر سکے۔
تنازعہ دونوں جانب سے وعدوںکی پاسداری نہ کرنیکی وجہ سے پیدا ہو۔ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے تمام ممبران اس بات پر متفق ہیں کہ اگر ان کے قوانین کی خلاف ورزی کی گئی‘ تو ان تنازعات کے حل کے لئے کثیر الفریق تجارتی نظام کا استعمال کریںگے‘جو طریقہ کار سب فریقین واضح کریںگے ۔تمام ممبر ممالک ان کے احکامات ماننے کے پابند ہیں۔ایسے تنازعات اس وقت جنم لیتے ہیں ‘جب ایک ملک تجارت کے لئے ان کے بنائے گئے قوانین سے انحراف کر کے‘ نئی پالیسی اور نئے طور طریقے اپناتا ہے‘جسے تیسرا ملک سامنے لاتا ہے اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے قوانین کے تحت تجارت کا خواہاں ہوتا ہے‘ تاہم جب بھی ممبران کے درمیان تنازعہ پیدا ہو‘ اس تنظیم کی پہلی ترجیح ہوتی ہے کہ وہ رائج کردہ قوانین کے تحت ان کے مابین صلح کا کردار ادا کرئے۔پس‘ اب بھارت اس تنازعے کے حل کے لیے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کا فورم استعمال کر رہا ہے۔اس کا یہ مطلب ہے کہ دونوں فریقین کے درمیان تجارتی تناعہ اس قدر بڑھ چکا ہے کہ دونوں اس کے حل کے لیے کوئی خاطر خواہ حل نکالنے میں ناکام رہے ۔
حال ہی میںامریکی صدر انتظامیہ نے 10 فیصد سے25فیصد تک ایلومینیم اورسٹیل کی مصنوعات کی درآمد پر ٹیکسز لگاتے ہوئے نیا ٹیرف متعارف کروایا۔امریکہ کی جانب سے یہ موقف اپنایا گیا کہ ایسا صرف ملکی سلامتی کی صورتحال اور سیف گارڈ کے طور پر کیا گیا ‘ جو ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے قوانین کے عین مطابق ہے ۔ان بھاری ٹیکسز کا نقصان بھارتی کاروباری حضرات اور بھارتی مصنوعات کو ہوا ‘ جس پر بھارت واویلا مچا رہا ہے کہ یہ سب عالمی تجارتی اصولوں کے برعکس ہے ۔عام طور پر یہ تاثر پیدا ہو رہا ہے کہ بھارتی درآمد شدہ سٹیل اور ایلومینیم کی مصنوعات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ دیکھنے کو ملے گا‘ جو لگ بھگ 1.6ارب تک ہوگا اور یہ نا قابل ِبرداشت ہے ۔
بھارت ‘روس‘جاپان‘یورپین ممالک اور ترکی نے امریکہ کے اس تاثر کو رد کر دیا کہ ایسا صرف امریکی سلامتی کے لئے کیا گیا اور عین عالمی قوانین کے مطابق ہے اور خدشہ ظاہر کیاکہ اس سے 3.5ارب تک ان مصنوعات پر اضافہ دیکھا جا سکتا ہے اور نیا امریکی ٹیرف عالمی تجارت پر گہرے اثرات مرتب کرے گا۔تجزیہ کاروں کے مطابق امریکہ نے یہ ٹیکسز صرف بھارتی مصنوعات اور اس کے زرمبادلہ کو کم کرنے کے لیے لاگو کیا ہے‘جس کا اثر تمام اقوام عالم کی تجارت پر پڑے گااور امریکی کی جانب سے سکیورٹی رسک کا بہانہ بنانا نا قابل فہم بات ہے ۔ امریکہ کی جانب سے ایسا کرناامریکہ اور بھارت دونوں ممالک کے تعلقات میں خلل پیدا کرسکتا ہے ۔ نقصان دہ بات خصوصاً اس وقت‘ جب دونوں ممالک نئے تجارتی معاہدے کر رہے ہوں۔دونوں ممالک اس کے علاوہ اور بھی کئی تنازعات میں گھرے ہوئے ہیں‘ جن میں پولٹری‘برآمدی منافع‘سولر اورسٹیل ہیں۔ امریکہ کی روش پر چلتے ہوئے بھارت نے امریکی درآمدگی مصنوعات پر کسٹم ڈیوٹی بڑھانے کا فیصلہ بھی کر لیا ہے ‘جس کا اطلاق رواں ماہ سے ہوگا۔ان مصنوعات میں بادام‘ اخروٹ‘ پلسز‘لوہا اور سٹیل ہیں ۔ان دونوں ممالک کے درمیان یہ تجارتی تنازعہ کس حد تک جاتا ہے ؟کچھ کہنا قبل از وقت ہے ؟