اگر افغانستان کے اندرونی معاملات ہم پر اثر انداز نہ ہوتے تو یہاں انہیں زیر بحث لانے کی ضرورت نہیں تھی لیکن بد قسمتی سے وہاں ہر تبدیلی یا عوام کو تکلیف میں مبتلا کرنے والی قدرتی یا غیر قدرتی آفات کا‘ سب سے پہلا اثر یہ ہوتا ہے کہ افغانستان سے مہاجرین کی بڑی تعداد پاکستان کا رخ کر لیتی ہے۔ ایران اور وسطی ایشیا کے ملکوں میںان مہاجرین کو کیمپوں کے اندر محدود رکھا جاتا ہے اور آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت نہیں دی جاتی جبکہ پاکستان میں انہیں ہر طرح کی آزادی حاصل ہے۔ یہ کاروبار کرتے ہیں۔ جائیدادیں خریدتے ہیں۔ اور مقامی آبادی کے ذرائع روزگار کو متاثر کرتے ہیں مثلاً آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ پنجاب سے قالین بافی کا زیادہ تر کام اٹک اور اس سے آگے صوبہ سرحد کی طرف منتقل ہو چکا ہے کیونکہ وہاں افغانستان سے آئی ہوئی انتہائی سستی لیبر دستیاب ہے۔ اس کے نتیجے میں پنجاب کے اندر قریباً آٹھ سے دس لاکھ مزدور عورتیں اور نوجوان بے روزگار ہو گئے ہیں‘ یہ صرف ایک شعبے کی بات ہے۔
مہاجرین سے بڑا مسئلہ طالبان کی پالیسیاں ہیں‘ جن کی براہ راست ذمہ داری ہم پر ڈالی جاتی ہے۔ اس کے برعکس ہمیں خود یہ شکایت ہے کہ پاکستان میں فرقہ وارانہ تخریب کاریاں کرنے والے عناصر‘ افغانستان میں تربیت حاصل کرتے ہیں۔ پاکستان کے مخالفین نے کشمیر کے جہاد پر بھی یہی لیبل لگا دیا ہے اور وہ دنیا کو مسلسل گمراہ کر رہے ہیں کہ اس دہشت گردی کی سرپرستی پاکستان کرتا ہے حالانکہ پاکستان خود دہشت گردی کا شکار ہے جبکہ کشمیری عوام غیر ملکی فوجی قبضے کے خلاف جنگ آزادی لڑ رہے ہیں۔طالبان کے خلاف اقوام متحدہ کی قرار دادوں اور پابندیوں کے بعد اب دنیا‘ طالبان کے مخالفین کو منظم اور متحرک کرنے لگی ہے۔ احمد شاہ مسعود‘ برسلز میں یورپین یونین سے خطاب کرنے والے ہیں۔ اصل اہمیت خطاب کی نہیں بلکہ اس بات کی ہے کہ یورپین یونین پہلی بار کھل کر احمد شاہ مسعود کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر رہی ہے۔ یہ واقعات دیگر بڑی طاقتوں کے رجحانات کی نشاندہی بھی کرتے ہیں۔ دوسری طرف خاموشی سے افغانستان کے مختلف عمائدین کو یورپ میں جمع کیا جا رہا ہے‘ جہاں کسی بھی وقت ایک جرگہ اکٹھا کر کے‘ ظاہر شاہ کو جلا وطن افغان حکومت کا سربراہ بنایا جا سکتا ہے۔ اگر صدام جیسا سوشلسٹ‘ ایک ہی دن میں قومی پرچم پر دینی نعرہ لکھ کر اپنے اسلامی نظرئیے کا اعلان کر سکتا ہے تو ظاہر شاہ بھی یہ کرگزریں گے اور ان کے اس نعرے کی بنا پر افغانستان کے جلاوطن لیڈر بھی مشترکہ محاذ بنانے پر آمادہ ہو سکتے ہیں۔ اگر طالبان کے خلاف یہ محاذ قائم کر کے شمالی اتحاد کے زیر قبضہ علاقوں سے فوجی کارروائی شروع کر دی گئی اور دنیا کی تمام بڑی طاقتیں‘ اقوام متحدہ کی آڑ میں طالبان کے خلاف حرکت میں آگئیں تو ہمارے لئے کیا چوائس رہ جائے گی؟ کیا ہم طالبان کے اتحادی بن کر دنیا کے خلاف باقاعدہ جنگ لڑیں گے؟ اور کیا ہم یہ جنگ لڑ سکیں گے؟ یا اقوام متحدہ کی عائد کردہ پابندیوں کی نگرانی عالمی مبصروں کے سپرد کر کے‘ طالبان کی دشمنی مو ل لیں گے؟ ہماری طرف سے عائد کردہ پابندیوں کے نتیجے میں افغانستان کے اندر عوام پر جو تکلیف آئے گی‘ وہ پاکستان کے اندر بیٹھے افغان مہاجرین کو مشتعل نہیں کرے گی؟ اور اگر انہو ںے پاکستان کے اندر جوابی کارروائیاں شروع کر دیں تو ہمارا کون سا شہر؟ اور قصبہ محفوظ رہے گا؟خدا جانے اسلام آباد میں ان امکانات کو زیر غور بھی لایا جا رہا ہے؟ یا انہیں کوئی حیثیت ہی نہیں دی جا رہی؟
یہاں ایک اور بات پیش نظر رہنا چاہئے‘ امریکہ کی دلچسپی کا اصل مرکز ‘ جنوبی ایشیا کا پورا خطہ ہے صرف افغانستان نہیں۔امریکہ کے عالمی مفادات کے لئے قابل ذکر چیلنج ہے اور نہ ہی افغانستان سے تربیت پا کر دوسرے ملکوں میں جانے والے مجاہدین‘ امریکہ کو تکلیف دے رہے ہیں۔ وسطی ایشیا‘ چیچنیا اور چین کے اندر‘ افغانستان سے تربیت
یافتہ افراد‘ اگر کچھ کارروائیاں کرتے بھی ہیں تو امریکہ اندر سے اس پر خوش ہوتا ہو گا اور شاید درپردہ ایسی کارروائیوں کی حمایت بھی کرتا ہو۔امریکہ کی سٹرٹیجک دلچسپی کے علاقے یعنی شرق اوسط میں طالبان کی خاص دلچسپی نہیں۔ سعودی عرب اور امارات ‘ طالبان کو باقاعدہ تسلیم کرتے ہیں۔ مصر میں افغانستان سے تربیت یافتہ کچھ افراد نے کارروائیاں ضرور کی تھیں لیکن سعودی عرب اور متحدہ
عرب امارات نے اپنے اثر و رسوخ سے یہ معاملہ رفع دفع کروا دیا تھالہٰذا سمجھنے کی بات یہ ہے کہ امریکہ‘ طالبان پر اس قدر زیادہ دبائو کیوں ڈال رہا ہے؟ میں بار بار ایک ہی بات لکھ رہا ہوں کہ سارے بہانے پاکستان کو گھیرنے کے لئے ہیں تاکہ افغانستان کی مدد کا الزام لگا کر‘ پاکستان کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی خلاف ورزی کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے
اور اس تہمت کی آڑ میں پاکستان کے خلاف اجتماعی کارروائی کی جائے‘ جو پابندیوں اور ناکہ بندیوں کی صورت میں ہو سکتی ہے ۔عالمی شاطر‘ بھارتی جارحیت کے نتیجے میں پاکستانی قوم کو متحد اور منظم ہونے کا موقع ہرگز نہیں دیں گے اور نہ ہی وہ ان دونوں ملکوں میں ایٹمی تبادلے کا خطرہ پیدا ہونے دیں گے۔ ہمیں کیوں گھیرا جا رہا ہے؟ اس کی وجوہ ڈھکی چھپی نہیں۔ امریکہ ‘بھارت کی قیادت میں چین کے خلاف جو علاقائی محاذ مرتب کر رہا ہے‘ پاکستان کو اس میں شامل کرنا چاہتا ہے اور وہ بھی بھارت کی شرائط پر۔ اگر ہم انکار کرتے ہیں تو ہماری معیشت کی بد حالی سے فائدہ اٹھا کر طالبان کی مدد کا مجرم ٹھہراتے ہوئے‘ امریکہ ہمیں مزید بد حال کرنے کی کوشش کرے گا تاکہ ہم بھارت کے سامنے جھک جائیں اور نہ ماننے پر وہ ہمیں دفاعی اعتبار سے نڈھال کر دے۔ امریکہ کی قیادت میں پوری دنیا کی اس کھلی جارحیت کا مقابلہ کرنا‘ ہمارے حق میں نہیں ہے لیکن دوسری طرف چین کے خلاف محاذ آرائی میں شامل ہو کر بھارت کے زیر دست ہونا‘ ہمارے لئے تباہ کن ہے۔ اس صورت میں اپنے قومی مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے‘ امریکی جارحیت سے بچنا‘ بھارتی بالادستی کو رد کرنا اور چین کے ساتھ اپنے دوستانہ تعلقات اور باہمی اعتماد قائم رکھنا ‘ ہمارے ملکی و قومی مفادات کے لئے ناگزیر ہے۔ پنڈت نہرو نے انتہائی مہارت سے سرد جنگ میں اس طرح کا توازن قائم کیا تھا‘ پاکستان کو بھی اپنے لئے پنڈت نہرو جیسی سفارت کاری اور ڈائر ایڈ نائرجیسی معاشی مہارت کا آمیزہ درکار ہے۔ سب سے بڑھ کر نئے حالات میں خارجہ پالیسی کو اجتماعی تائیدو حمایت سے مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کسی کی بھی ہو؟ اندرونی پالیسیاں کیا ہوں؟ اس پر سب آپس میں لڑتے رہیں‘ فرق نہیں پڑے گا لیکن خارجہ پالیسی کے نئے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے اجتماعی فیصلہ سازی اور تائید و حمایت کے بغیر شاید ہم نئے چیلنجز کا مقابلہ نہ کر پائیں ۔ (5 اپریل 2001 )