بھارتی وزیراعظم‘ نریندر مودی نے سارک چارٹرڈپر کہا ہے کہ دہشت گردی‘ جنوبی ایشیا کے امن کے لئے عظیم خطرہ ہے۔انہوں نے کٹھمنڈو میں34ویں سارک چارٹر ڈے میں بتایا کہ دہشت گردی بھارت ہی نہیں‘ بلکہ دنیا کے مختلف ممالک کے لئے خطرہ ہے‘ جس سے خاص طور پر جنوبی ایشیا متاثر ہو رہا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ گزشتہ کئی دہائیوں میں خصوصی طور سے مختلف ممالک دہشت گردی کا شکار ہوئے ہیں اور یہ سلسلہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ پاکستان سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے۔ دہشت گردی پر قابو پانے کی بات تقریباً ہر عالمی کانفرنس میں مختلف ممالک کے سربراہان نے کہی ہیں۔ عملی طور پر دیکھا جائے تو کوئی ملک اس پر ٹھوس کارروائی کرنے سے گریزاں ہے۔ دہشت گردی کہاں سے پیدا ہوتی ہے؟ اس بات کو سمجھنے کے لئے ضرورت ہے کہ جن ممالک میں دہشت گردانہ واقعات ہوئے ہیں ‘ ان کا بغور جائزہ لیں تو پتا چلتا ہے کہ دنیا کے جن ممالک میں نا انصافیاں ہوئی ہیں‘ وہاں دہشت گردانہ حملے زیادہ ہوئے ہیں اور نتیجتاً بے قصور لوگوں نے عالم مجبوری میں‘ ہتھیار اٹھا لئے‘ کیونکہ وہ براہ راست بڑی طاقتوں سے ٹکر نہیں لے سکتے‘ اس لئے چور دروازے کا استعمال کرتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ عراق پر امریکی حملے کے بعد وہاں داعش سمیت دوسری تنظیموں نے ہتھیار اٹھائے اور بڑے پیمانے پر تباہی مچا ئی اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔امریکہ نے عراق پر حملے کرنے کا جواز یہ ڈھونڈا کہ اس کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی مچانے والے ہتھیار ہیں ‘لیکن جب امریکی فوجیں عراق داخل ہوئیں تو ایک بھی تباہی مچانے والا کیمیکل یا نیو کلیائی ہتھیار نہ ڈھونڈ سکیں۔امریکہ نے عراق پر صرف اس لئے حملہ کیا کہ صدام حسین نے امریکہ سے آنکھ ملا کر بات کرنے کی حماقت کی تھی۔ امریکہ چاہتا ہے کہ دنیا خصوصاً اسلامی ملک اس قابل نہ رہے کہ وہ اسے آنکھیں دکھانے کی جرأت کر سکے۔ یہی وجہ ہے کہ عراق پر حملے کے لئے برطانیہ سمیت دوسرے حلیف ممالک کو اپنی قیادت میں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا اور صدر صدام حسین کو اقتدار سے ہٹا کر تختہ دار پر لٹکا دیا۔بیشتر تجزیہ کار وں کا کہنا ہے کہ امریکہ دہشت گردوں کی پشت پناہی کرتا رہا ہے۔ افغانستان کے معاملے پر اگر غور کیا جائے تو جب وہاں سوویت یونین کی حمایت یافتہ نجیب اللہ حکومت اقتدار میں تھی تو امریکہ نے طالبان کو ہتھیار دے کر‘ روسی فوج کے مقابلے میں کھڑا کیا۔ ان سے جنگ لڑی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ افغانستان سے روس نے اپنی فوج ہٹا لی اور اس کے بعد خود افغانیوں نے اپنے سربراہ نجیب اللہ کو سرعام پھانسی پر لٹکا دیا۔اس کے بعد اسامہ بن لادن کی قیادت میں القاعدہ نے امریکہ کے خلاف افغانستان میں کارروائی شروع کی تو پھر امریکہ نے ان ہی لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا ‘ جنہیں اس نے اسلحہ اور رقم فراہم کی تھی۔ امریکہ اگر چاہتا تو دنیا میں قیام امن کے لئے بہت کچھ کر سکتا تھا؟ لیکن ایسا نہیں کیا۔ صرف اپنے مفاد کے لئے ہتھیاروں کا بے دریغ استعمال کیا اور کئی ممالک کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔
دہشت گردی کے بارے میں مودی کی تشویش بجا ہے‘ لیکن ہم دہشت گردی سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں اور ہو بھی رہے ہیں‘ لیکن ا س پر قابو پانے کے لئے سب سے پہلے انصاف کو عملی جامہ پہنانا ہو گا۔ دہشت گردی جہاں امن و امان کے لئے شدید خطرہ ہے‘ وہیں فرقہ پرستی امن کے لئے اس سے بھی بڑا خطرہ بن کر ابھر رہی ہے‘ جس پر مودی کو توجہ دینا چاہئے‘ تاکہ فرقہ پرستی سے تنگ آکرکوئی دہشت گرد نہ بنے ۔ جہاں نریندر مودی نے دہشت گردی پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے‘ وہیں فرقہ پرستی کی روک تھام کے لئے بھی لب کشائی کرنی چاہئے تھی۔ہم سب کو مل کر دہشت گردی اور فرقہ پرستی کے خلاف کام کرنے کی ضرورت ہے‘ تبھی ہم جنوبی ایشیا کو محفوظ بناسکتے ہیں۔ آج دنیا کے ممالک کو سنجیدگی سے غور کرنا ہو گا کہ بد امنی کا خاتمہ کس طرح کر سکتے ہیں؟