ایران‘ شمالی کوریا کی نسبت آسان ہدف بھی گرداناجاتا تھا‘اس پر پابندیاں عائد کرکے بینکوں پر خصوصی نظر بھی رکھی جا سکتی تھی۔ایران‘ شمالی کوریا طرز کے نظام کا حامل ملک نہیں‘ اسے اس بات پر مجبور بھی کیا جا سکتا تھا کہ وہ اپنے عوام کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے‘ اس کا ہر حکم مانے۔اس بات سے بھی منہ نہیں موڑا جا سکتا کہ ایران ایک تاریخی حیثیت رکھنے والا ملک ہے اور اس کا وسیع مالیاتی‘ تجارتی نظام ہے‘جس کی جڑیں عالمی نظام سے جا ملتی ہیں خصوصاً تیل کی تجارت‘ مگر وہ دوسری مشرقی ریاستوں کی طرح بھی نہیں۔ایران خود کو جغرافیائی طورپر ایک طاقت بھی سمجھتا رہا ہے اور وہ دوسرے ہمسایہ ممالک کو معاملات کے حل کے لیے زور ڈالنے کی استطاعت رکھتے ہوئے خود کو سپیر ئیر سمجھتا رہا اور یہ کچھ وقت کے ساتھ ساتھ کچھ حد تک صحیح بھی تھیں کہ ایران ‘شمالی کوریا کی نسبت زیادہ بڑااقتصادی اور معاشی نظام رکھتا تھا۔2012ء تک امریکہ نے ان تمام بینکوں کو نشانہ بنایا جو ایران کی مالیاتی طور پر مدد کرتے رہے یا اس کے مالیاتی نظام سے وابستہ رہے۔امسال کے آغاز پر اس نے تمام ایرانی تیل سے منسلک کمپنیوں پرمزید پابندیاں لگانا شروع کردیں‘ جسے پابندیوں کا دوسرادور بھی کہا جانے لگا۔امریکہ نے ان غیرملکی کمپنیوں کو چن چن کر پابندیوں کا نشانہ بنایا جو ایرانی تیل پر سب سے بڑی سرمایہ کار ی کر رہی تھیں۔ان میںزیادہ تر وہ تھیں جو تیل کی سپلائی کرنے کے لیے تیل کے ٹینکرز اور ذخیرہ کرنے جیسے مراحل میں ایران کی مددگار تھیں۔ تیل کی کمپنیاں خصوصا ًفرانس کی ٹوٹل اور چین کی سی این پی سی عالمی مالیاتی نظام سے لین دین کرتی تھیں ۔یہ پابندیاں کافی حد تک کارگر ثابت ہوئیں‘تاہم کچھ در پردہ کمپنیاں ایران کے ساتھ کام کرتی رہیں۔غیرجانب دارانہ طور پر دیکھا جائے تو ایران سب پابندیوں کے باوجود اپنے منصوبہ جات کی تکمیل میں کامیاب رہا‘2012ء سے 2015ء تک اس کی معیشت کو دھچکا بھی لگا‘جب ایرانی ریال بہت زیادہ گر گیا تھا۔ تیل کی تجارت کا حجم آدھا ہو چکا تھا۔ یوں کہہ سکتے ہیں کہ ان پابندیوں کی بدولت ایران‘ واشنگٹن کے ساتھ مذاکرات کی میز پر آبیٹھااور دنیا ایران کو نیوکلیئر پروگرام ترک کرنے پر آمادہ کرنے لگی۔
امریکہ اپنے حریفوں کے لیے عسکری طاقت کاا ستعمال بطور فیشن بھی کرتا رہا۔جارج ڈبلیو بش اور بارک اوبامہ کے دور حکومت میں بہت زیادہ اس کا مظاہرہ دیکھنے کو ملا۔ عمومی طور پرامریکی انتظامیہ اس کے حق میں تھی مگر موجودہ امریکی صدر ٹرمپ بار بار دنیا کو یہ باور کراچکے ہیں کہ وہ امریکہ کے دشمنوں کے خلاف اکیلے ہی لڑتے رہیں گے ۔ صدرٹرمپ کے اس جوشیلے انداز نے امریکی پالیسیوں کو کافی حد تک نقصان بھی پہنچایاجیساکہ وہ شمالی کوریا کو جواز بناتے ہوئے چینی مالیاتی اداروں اور بینکوں پر پابندیاں لگانے کی کوشش کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ جس پر ان کی پارٹی اور دیگر نے تنقید کا نشانہ بھی بنایا کہ چین‘ ایران نہیں جس پر جب چاہیں پابندیاں لگا دیں۔
ایران پر پابندیوں کے بعد امریکہ اس بات سے بخوبی آگاہ ہو چکا تھا کہ وہ مطلوبہ نتائج پانے میں کامیاب ہوگیا تھا جس کے لیے وہ یہ سارا عمل جاری رکھے ہوئے تھا۔شروعات میں ایسا لگ رہا تھا کہ وہ کامیاب ہو چکا ہے جب ایرانی ریال ستمبر 2017ء میں گر کر 140000 فی امریکی ڈالر تک جا پہنچا ۔مغربی کمپنیاں جن میں ٹوٹل اور ڈیملر شامل تھیں ‘نے ایران میں آٹوانڈسٹری میں سرمایہ کاری کا منصوبہ بنایا۔اسی دور میں ایران پر تیل اور دوسری پابندیاں ختم کر دی گئیں۔،امریکہ تب بھی چاہتا تھا کہ دنیا میں ایرانی تیل کی تجارت ختم ہو مگر اس کے باوجود اس نے آٹھ ممالک کی 6 کمپنیوں کو ایرانی تیل کی تجارت کی اجازت بھی دے دی تھی‘ اس وقت عالمی سطح پر تیل کی قیمتیں 85ڈالر فی بیرل تک جا پہنچی تھیں۔امریکہ نے یہ بات بھی کمپنیوں کو واضح کردی کہ تیل کی قیمتوں کی ادائیگی بذریعہ چیک کی جائیں ۔عالمی سطح پر تیل کی قیمتیں گرتی چلی گئیں اور خود امریکہ میں تیل کی پیداواربڑھنے لگی۔دیگر تمام ممالک ایرانی تیل کو فوقیت دینے لگے اور یوں ایرانی تیل کی مارکیٹ امریکہ کے مالیاتی نظام پر گہرا اثر چھوڑنے لگی۔
امریکی حکومت نے خود تو پابندیاں لگانے کا نہ سوچا مگر اکتوبر میں بجٹ برائے غیر ملکی اثاثہ جات کے ادارے نے‘ ایران پربیسسے زائد پابندیاں لگادیںجو کہ مالیاتی طور پر ایرانی نظام ''باسیج‘‘ پر اثر انداز ہوتی تھیں جو انقلاب کے بعد عمل میں آیا ۔امریکہ کے اس فیصلے پر ایرانی حکام نے تشویش کااظہار بھی کیا مگر یہ ان کے لیے نئی بات بھی نہیں تھی۔امریکی ادارہ بجٹ برائے غیر ملکی اثاثہ جات نے کافی جواز بنائے اور ان پر دنیا کو اعتماد میں لینا بھی شروع کر دیا۔انہی پابندیوں کی بدولت ایرانی فارسی بینک اور دیگر بڑے غیرسرکاری بینکوں نے بھی پابندیاں لگانا شروع کردیں۔ انہوں نے یہ پابندیاں ''باسیج‘‘ پر براہ راست تو نہ لگائیں مگر اس کے مالیاتی نظام سے وابستہ دیگر کمپنیوں کو نشانہ بنایا ۔امریکہ نے ایرانی تجارت کا بائیکاٹ کرنے والوں کو خصوصی مراعات دینے کا اعلان بھی کیا تھا ۔امریکہ‘ ایران کے ساتھ ساتھ دوسرے ممالک پر بھی اس طرح کی پابندیاں لگانے کا سوچ رہا ہے‘ جسے اس کے اتحادی فرانس اور جرمنی ایک احمقانہ عمل قرار دے رہے ہیں۔، روس اور چین کی پر اسرار خاموشی اپنے آپ میں کئی سوال رکھے ہوئے ہے؟