کوئی حکومت اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک اس ملک میں بسنے والے عوام مطمئن نہ ہوں۔ کئی بار حکومت کے فیصلے عوام کی بے چینی کا سبب بنتے ہیں اور کئی بار سابقہ حکومتوں کی ''کارکردگیاں‘‘ پریشانی کا باعث بنتی ہیں۔ یہی صورتِ حال ان دنوں فرانس کے عوام میں پائی جاتی ہے۔فرانس کے موجودہ حالات کو سمجھنے کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ ایمانیول میکر و ںکے صدر بننے سے پہلے ‘ فرانس کی صورت حال کیا تھی؟ ایمانیول میکروں 14 مئی 2017 ء کو صدر بنے ۔ صدارت سنبھالے انہیں ابھی ڈیڑھ برس بھی نہیں ہوا‘ اس لئے حالات کی ذمہ داری پوری طرح ان پر نہیں ڈالی جا سکتی؛البتہ فرانسیسی صدر کے لئے یہ بات نا قابل فہم نہیں ہونی چاہئے کہ وراثت میں انہیں کیا ملا ہے؟ مسائل سے نمٹنے کے لئے انہیں کیا حکمت عملی اپنانی چاہئے؟ کیونکہ کئی بار مفاد عامہ کی فکر میں جلد حالات بدلنے کی کوشش‘ حالات کے مزید خراب ہونے کی وجہ بن جاتی ہے‘ پھر پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں ہاتھ آتا۔ فرانس میں زیادہ تر گاڑیاں ڈیزل سے چلتی ہیں؛ چنانچہ ڈیزل کی قیمتوںمیں کمی یا اضافے کا اثر فرانسیسی عوام پر پڑنا فطری ہے۔2000ء سے ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا چلا آ رہا ہے۔ اس وقت فرانس میں ڈیزل کی قیمت135روپے ہے۔پچھلے سال کی نسبت 23فیصد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ حکومت نے ٹیکسوں کی مدمیں بھی اضافہ کر ڈالا۔ حالات اتنے خراب ہو گئے کہ عوام کے صبر کا بند ٹوٹ پڑا۔ سڑکوں پر نکل آئے۔صدر میکروں نے شاید یہ سوچا تھا کہ جیسے اب تک ڈیزل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو عوام قبول کرتے چلے آرہے ہیں‘ اس بار بھی کر لیں گے‘ مگر ملک میں اگر بے روزگاری ایک مسئلہ ہو‘ خط افلاس سے نیچے رہنے والوں کی بھی خاصی تعداد ہو تو ‘پھر عوام کے صبر کا امتحان لینا کہاں کی دانش مندی ہے؟ نہ جانے کیوں میکروں حکومت نے توانائی کی قیمتوں میں ایک بار پھر اضافہ کر ڈالا؟
فرانس کے صدر ایمانیول میکر و ں کے اختیار میں جو کچھ ہے‘ وہ کر رہے تھے‘ لیکن حالات ایک دودن میں نہیں بدلے جاسکتے۔ فرانسیسی عوام کو صدر کی اہلیت پر اعتبار کرنا ہو گا۔ صدر کو وقت دینا ہو گا‘ تاکہ وہ حالات بدلنے کے لئے کچھ بہتر اقدامات کر سکیں۔ تعجب کی بات ہے کہ ڈیزل پر ٹیکس میں اضافہ احتجاج کی بنیاد بن گیا۔ جب احتجاج کا سلسلہ شروع ہو اتو بے روزگار اور بد حال لوگ بھی اس کا حصہ بن گئے‘ مگر اس وقت ان لوگوں نے احتجاج کی ضرورت کیوں نہ محسوس کی؟ جب فرانس کے سابق صدر نکولس سرکوزی کے لئے چند سو خواتین کا نقاب پہننا اہم ایشو بن گیا تھا۔ اس وقت بھی فرانس میں لاکھوں لوگ بے روزگار تھے۔ خطِ افلاس کے نیچے زندگی بسر کر رہے تھے۔ سرکوزی فرانسیسی عوام سے یہ کہتے رہے کہ نقاب‘ فرانس کی ثقافت کے لئے خطرہ ہے ‘ پھر ان کے لئے روزگار کا انتظام کرنے سے زیادہ‘ انہیں نقاب کے خلاف قانون بنانے کی فکر کیوں ہے؟
17دسمبر2010ء کو تیونس کے ایک گریجویٹ نوجوان البو عزیزی نے خود سوزی کی کوشش کی۔ اس کے بعد عوامی احتجاج کی لہر میں زین العابدین اور حسنی مبارک جیسے لیڈروں کواقتدارسے ہاتھ دھونا پڑا‘ مگر سرکوزی مطمئن تھے۔ انہیں لیبیا کے حالات سے خاصی دلچسپی تھی۔ وہ کرنل معمر قذافی کو انجام تک پہنچانا چاہتے تھے ‘مگر کیا اس طرح وہ فرانس کے حالات بدل سکتے تھے؟ عوام نے دیکھ لیا کہ نقاب پر پابندی ‘لاکھوں بے روزگار نوجوانو ں کو روزگار نہیں دلا سکی ۔نقاب کے خلاف مہم چلانے اور قانون بنانے کی بجائے سرکوزی نے بے روزگار فرانسیسیوں کی طرف توجہ دی ہوتی تو آج فرانس کے حالات مختلف ہوتے۔ لاکھوں بے روزگار نوجوانوںکے لئے روزگار کا انتظام کرنا سرکوزی کے فرائض منصبی میںسرے سے ہی شامل نہ تھا۔معمر قذافی کی موت‘ فرانس کو اقتصادی طور پر نہ مزید مضبوط بنا سکتی تھی اور نہ بنا سکی۔معمر قذافی کی موت بھی سرکوزی کو دوبارہ اقتدار نہ دلا سکی۔نکولس سرکوزی کے بعد آنے والے فرانسیسی صدور کی توجہ اپنے ملک پر مرکوز رہی۔ اس لئے وہ فرانس کی آمدنی اور خرچے میں جو فرق ہے‘اسے کم کرنے کی تگ و دو میں لگے رہے۔ میکروں بھی اقتصادی طور پر فرانس کو مزید مستحکم بنانا چاہتے ہیں اور ان کا ایسا چاہنا غلط بھی نہیں۔2017ء میں فرانس کی آ مدنی 1.3ٹریلین امریکی ڈالر تھی تو خر چ 1.5 ٹریلین ڈالر تک جا پہنچا تھا۔ اس صورت ِحال کو بدلنا آسا ن نہیں تھا ‘کیونکہ فرانس میں گھریلو پیداوار کی شرح کم ہے۔ 2018ء میں جہاں جی ڈی پی 2فیصد رہا ہو تو ‘پھر عوام کی زندگی کیسے بدلی جا سکتی ہے؟ کیسے روزگار کے نئے مواقع پیدا کئے جا سکتے ہیں؟کیسے خطِ افلاس سے نیچے زندگی گزارنے والوں کا میعار زندگی بلند کیا جا سکتا ہے؟
صدر میکروں‘ سابق فرانسیسی صدر نکولس سرکوزی کی طرح نقاب پر پابندی جیسے نان ایشو کو ایشو بنا کر عوام کو الجھانا نہیں چاہتے ۔ان کے لئے یہ بات نظر انداز کرنا مشکل ہے کہ2017ء تک فرانس میں 5.5 فیصد لوگ خطِ افلاس کے نیچے تھے‘ جبکہ 2018ء کی دوسری سہ ماہی تک9.1فیصد لوگ بے روزگار تھے۔ ان حالات میں عوام کی بے چینی ختم کرنے کے لئے صدر میکروں کو آئندہ کا لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا اور ملکی مفاد میں بہترین فیصلے کرنا ہوں گے‘ تاکہ فرانسیسی عوام کا میعار زندگی بہتر ہو اور ان کا اعتماد بحال ہو سکے‘ جبکہ فرانس کودرپیش صورت حال کے ذمہ دار سابق صدر نکولس سرکوزی تھے‘ موجودہ صدر میکروں نہیں۔ دوسری طرف ہم ہیں‘ وزیراعظم عمران خان کو ابھی اقتدار میں آئے ایک مہینہ بھی پورا نہیں ہوا تھا کہ ان کے مخالفین کا لشکر بے تابی سے پیر پٹخنے لگا ۔جب انہوں نے اقتدار کے سو دن گزار کے اپنی کارکردگی کا جائزہ پیش کیا تو حریف آہ و بکاکرنے کھڑے ہو گئے کہ سو دن میں تو دودھ کی نہریں بہنا چاہیں تھیں اور اب مخالفین کا لشکر سینہ کوبی کرتا ہوا مہنگائی کا سیاپا کر رہا ہے۔