معروف ادیب و مصنف اشفاق احمد ایک موقع پر کہتے ہیں '' زندگی میں کوئی خوشی‘ کوئی رشتہ‘ کوئی جذبہ مستقل نہیں ہوتا‘ ان کے پائوں ہوتے ہیں۔ ہمارا سلوک اور رویہ دیکھ کر کبھی یہ بھاگ جاتے ہیں اور کبھی آہستہ آہستہ دور چلے جاتے ہیں‘‘۔ بھارت کی پانچ ریاستوں میں آنے والے انتخابی نتائج پر اشفاق احمد کے اس قول کا اطلاق ہوا ہے۔ زمین وآسمان سے گفتگو کرنے والے بی جے پی کے ترجمان اور لیڈروں نے گزشتہ انتخابات میں اکثریت اور عوام کا بے انتہا یقین حاصل کرنے کے بعد‘ جس طرح کا رویہ روا رکھا‘ اس نے عوام کو مجموعی طور پر متنفر کر دیا ۔ دوسری طرف کانگرس‘ جسے مختلف انتخابات میں ذلت آمیز شکست ہوئی تھی اور قومی سطح پر قیادتوں میں بھی خاطر خواہ تبدیلی آئی تھی‘ اس نے عوام کے ساتھ رشتہ قائم رکھا اور اسی کو بنیاد بناتے ہوئے کامیابی حاصل کی۔ ہٹلر کی تھیوری تھی "Hostility" یعنی عداوت اور دشمنی۔ اس میں اپنے ہمسائے‘ ساتھی ‘ برادران سے وطن کے خلاف عداوت کے جذبات بھڑکائے جاتے ہیں؛ حالانکہ ہر ذی شعور بخوبی جانتا ہے کہ سستے گوشت کا تعلق صرف قوت خرید سے ہے‘ ایمان سے نہیں۔گائے کا گوشت کھانا‘ ایمان کا حصہ نہیں۔اس ایشو پر مسلمانوں کی آہ و بکا نہ سنی گئی اور اب شاید کبھی نہ سنی جائے ‘کیونکہ مودی سرکار نے بھارت میں مسلمانوں کی اہمیت کا مفروضہ توڑ کے رکھ دیا ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی پر لازم ہے کہ وہ ان انتخابات کے نتائج سے یہ بات سمجھ لے کہ بھارت جیسے بڑے ملک میں جہاں ہزاروں برسوں سے مختلف قومیں‘ ذاتیں اور قبائل آباد ہیں‘ پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا۔ مدھیہ پردیش‘ چھتیس گڑھ اور راجستھان
اسمبلیوں کے انتخابی نتائج و رجحانات پیش کئے جانے کے دوران‘ نجی ٹی وی چینلز پر تمام پارٹی ترجمان اور تجزیہ و تبصرہ نگار اینٹی اِن کمپینسی ‘ حکومت مخالف رجحان کا لفظ کثر ت سے استعمال کر رہے تھے۔ بر سر اقتدار طبقہ بی جے پی کے سرکردہ لیڈر ان شکست کے اصل اسباب جاننے سے گریزاں رہے اور عذر‘ لنگ اینٹی اِن کمپینسی ہی بتایا۔ دیکھا جائے تو اینٹی اِن کمپینسی کا شکار درحقیقت چھتیس گڑھ کی بی جے پی سرکار ہی ہوئی ۔وہاں بی جے پی کے ستائے ہوئے عوام نے وزیراعلیٰ رمن بھیا کو مسترد کر دیا۔ رائے دہندگان نے خاموشی سے یہ کارنامہ انجام دیا کہ ایگزٹ پول والے بھی انگشت بدنداں رہ گئے۔ چھتیس گڑھ میں وزیراعلیٰ رمن بھیا کو عرش سے فرش پر گرا دیا۔ بی جے پی تین ریاستوں میں شکست کا واقعی محاسبہ کرنا چاہتی ہے تو یہ سمجھنا ہو گا کہ اس کے پیروں تلے سے کھسکتی زمین کو‘ اب مودی نام کی چٹان روکنے میں ناکام ہو رہی ہے۔ پارٹی کے چانکیہ امیت شاہ کا ہر مہرا کارگر ثابت نہیں ہو رہا۔ بھارتی عوام کی اکثریت من پسند اور خوش حال زندگی گزارنے کی عادی ہے۔نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کو نریندر مودی خواہ کتنا
ہی ملکی معیشت کے حق میں اہم قرار دیں‘ لیکن عوام ابھی تک ناراض ہیں۔امید یہی کی جاری ہے کہ 2019ء کے پارلیمانی انتخاب کے لئے راہول گاندھی جو لائحہ عمل ترتیب دیں گے‘ اس فیکٹر کو ضرور ملحوظ رکھنا ہو گا‘وہ سیکولر پارٹیاں جو اب تک محاذ کا حصہ بننے سے انکار کر رہی تھی‘ اس وقت ان کے تیور میں نرمی صاف دکھائی دے رہی ہے۔ یہی وہ موقع ہے کہ ذرا سی کوشش سے ہم خیال پارٹیاں اپنی پیش کردہ شرائط میں تخفیف کر سکتی ہیں اوربڑا اتحاد بنا کر بھارت کومضبوطی اور استحکام بخش سکتی ہیں۔غرضیکہ راہول گاندھی موقع غنیمت جانتے ہوئے اکھلیش اور مایا وتی کو باعزت طور پر مدعو کر لیں اور سنجیدگی سے بات کریں ‘ورنہ راہول خود بھی جانتے ہیں کہ سیاست دانوں کی سوچ اور پالیسی بدلنے میں دیر نہیں لگتی ہے۔
''نئے بھارت‘‘ کی تعمیر کے لئے راہول گاندھی پر لازم ہے کہ کانگرس کی پیش آمدہ پالیسیوں کو فرقہ واریت سے بچائیں ۔ یہ تبھی ممکن ہو گا‘ جب وہ کانگرس کے ماضی پر نظر ڈالیں۔ ان کے گزشتہ دور اقتدار میں کم و بیش25ہزار فرقہ وارانہ فسادات اور بابری مسجد کی شہادت کا بد نما داغ ہے۔کانگرس قطعی طور پر یہ کہہ کر نجات حاصل نہیں کر سکتی کہ اس کے دور اقتدار کو معتوب بنانے کے لئے ‘فرقہ پرست تنظیمیں اور پارٹیاں نفرت کا زہر پھیلاتی رہیں۔ آپ کا یہ عذر کمزور حکمرانی اور نا اہلی کی نشاندہی کرتا ہے۔ بہتر اور خوش حال حکمرانی کے لئے لاء اینڈ آرڈر‘ عدل و انصاف اور حقوق کی ادائی کا ایسا مظاہرہ کرنا ہو گا کہ سماج دشمن عناصر کو ریشہ دوانیوں کا کوئی موقع نہ ملے۔ دل و دماغ کو حاضر رکھیں اور ہمیشہ آنکھیں کھلی رکھیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ فتوحات کے چند خوش گوار جھونکوں سے ایسے لطف اندوزو مخمور ہو جائیں کہ حریف آپ کے خواب ِغفلت کا فائدہ لے اور آپ کی نیند ہمیشہ کیلئے اڑ جائے۔
اب ذرا اقتدار میں مسلمانوں کی حصہ داری کی بات کر لیتے ہیں۔ بڑے افسوس کا مقام ہے کہ بھارتی اسمبلی و پارلیمانی ایوانوں میں مسلمانوں کا تناسب بتدریج کم ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اس مرتبہ راجستھان میں ٹکٹ تقسیم کے معاملے میں کانگرس نے مسلمانوں کے تئیں کسی قدر فراخ دلی کا مظاہرہ کیا اور درجن بھر مسلم امیدوار متعارف کرائے ‘لیکن ہمیشہ کی طرح اس بار بھی ایک مسلم امیدوا رکے سامنے دس دس مسلم امیدوار کھڑے ہو گئے اور بیشتر سیٹیں بی جے پی کی جھولی میں چلی گئیں۔ مسلم اکثریتی علاقوں میں مسلم امیدواروں کی کثرت ایک روایت سی بن گئی ہے اور یہ چلن اس مرتبہ بھی عام رہا۔ مسلم اکثریتی علاقوں کے بارے میں ایک عام رجحان یہ ہے کہ کسی بھی مضبوط مسلم امیدوار کے سامنے کھڑے ہونے والے درجن بھر مسلم امیدواروں کو اپنی کامیابی سے زیادہ‘ اپنے مسلم بھائی کی شکست عزیز ہوتی ہے۔ خدا جانے یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا؟اور ایک مسلم امیدوار کو کامیاب بنانے کی کوشش کب رنگ لائے گی؟ سیاسی بے وزنی کے شکار مسلمان اپنی کم مائیگی کا رونا تو روتے ہیں‘ لیکن ہوش کے ناخن کیوں نہیں لیتے؟ نعرہ تو لگاتے ہیں کہ فرقہ پرست پارٹیوں کی پسپائی کے لئے تمام سیکولر پارٹیاں متحدہ ہیں‘ لیکن خود اپنی صفوں میں اتحاد قائم کرنے سے گریزاں ہیں۔