"NNC" (space) message & send to 7575

شکار اور شکاری

ایک شخص جنگل میں کہیں جا رہا تھا‘ تو ایک اجنبی آدمی اچانک سامنے آگیا ۔گم شدہ آدمی نے عجیب الخلقت ہیولے کو دیکھتے ہوئے پوچھا '' محترم !یہ بتائیے کہ آپ کون ہیں؟‘‘ 
جواب ملا ''میں دیوتاہوں!‘‘۔
گمشدہ انسان نے حیرت زدہ ہو کر پوچھا کہ '' حضور! آپ کیا کرتے ہیں؟‘‘
جواب ملتا ہے '' میں بندے بنا تا ہوں‘‘۔
گم شدہ آدمی نے اپنے چہر ے کی طرف انگشت شہادت سے اشارہ کرتے ہوئے کہا '' یہ بندہ بنایا ہے؟‘‘ اوردونوں اچانک غائب ہو گئے‘ لیکن دونوں میں سے ایک انسانوں جیسی مخلوق ہے ‘جو پاکستان میںپائی جاتی ہے۔اس مخلوق کا نام سیاست دان ہے اور سیاست اس کا اوڑھنا بچھو ناہے۔ سیاست وہ ہے‘ جو بندے بگاڑتی اور بناتی ہے۔ ہماری مشکل بھی یہی ہے۔پاکستانی سیاست انگریزوں کے رخصت ہونے کے بعد موجود تو ہے‘ لیکن وہ ہر کسی سے پوچھتی پھر رہی ہے کہ ''مجھے کس نے بنایا؟‘‘
سیاست دان نے بتلایا ''بنانے والا تو میں ہوں‘‘۔
اب میں خود حیرت زدہ ہوں کہ دنیا بھر میں سارے سیاست دان ایک نہ ایک شکل و صورت رکھتے ہیں۔ بڑے مہذب اور شائستہ ہوتے ہیں۔ سیاست کے موضوع کو بھی سمجھتے ہیں اور اس سمجھ بوجھ کے ساتھ معاشرے کو ترقی دینے میں لگے رہتے ہیں۔ 
ترقی یافتہ ملکوںکے سیاست دان اپنی قوم اور معاشرے کو بہتر سے بہتر شکل و صورت دینے میں مصروف رہتے ہیں۔ معاشرے کو نکھارتے ہیں۔ آدمیوں کو انسان بناتے ہیں‘ لیکن پاکستان میں گنگا الٹی بہتی ہے۔ یہاں کے سیاست دانوں میں کچھ بھی بنانے کی اہلیت نہیں ہوتی ۔ ہمیشہ ایک دوسرے کی صورت بگاڑتے رہتے ہیں‘ جو حریف کی شکل و صورت سب سے زیادہ بگاڑے‘ معاشرے کے نظم و نسق کو درہم برہم کر کے رکھ دے ‘وہی کامیاب سیاست دان کہلاتا ہے۔ سیاست کا مشغلہ کرنے والے سارے ‘موٹے ‘ نوکدار‘ گول مٹول اور لمبے ٹھگنے‘ اپنے چہرے دیکھنے سے محروم‘کیونکہ انہیں '' آئینے ‘‘دستیاب نہیں ہوتے‘ جس وجہ سے وہ اپنی ''شکلیں ‘‘دیکھنے سے قاصر رہتے ہیں۔غنڈہ گردی پر فخر کرنے والا ایک سیاست دان کم یاب بالوںاور فرواں دانتوںکے ساتھ‘ ہاتھ ہلا کر لوگوں سے اظہار محبت کرتا ہے۔ اس کی محبت کا طرز ِاظہار یہ ہوتا ہے کہ وہ ہونٹو ں کو لپیٹ کے‘ اپنی انگلیوں سے دانتوں کے اردگرد جمے تھوک کو پھونک مار کے حاضرین پر پھینکتا ہے۔ یہ تھوک اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ حاضرین کے چہرے اچھی طرح بھیگ جائیں۔ حاضرین اور لیڈر دونوں اپنی حرکات سے سیاست کے خدو خال نکھارتے ہیں اور اپنے حریف سیاست دان کو''القابات‘‘ سے بے تحاشا نوازتے ہیں۔ایک کہتا ہے: ہم نے لوگوں کی بہت خدمت کی اوردوسرا کہتا ہے کہ میں پاکستانی عوام کے محبو ب لیڈر کے نقش قدم پر چلتا ہوں اور جدھر بھی جاتا ہے‘ اپنے لیڈر کے نقوش قدم مٹاتا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ یہ لیڈر‘ غریبوں کا خون پی کر ڈکاریں مارتا ہے ۔دونوں ایک دوسرے کے مقابل سیاسی میدان مارنے میں کسر نہیں چھوڑتے۔ کبھی یہ دشمن ہوتے ہیں۔ کبھی یہ ایک دوسرے پر فدا ہوتے ہوئے‘ اپنے حامیوں کو مخالف فریق کے کیمپ میں دھکیل دیتے ہیں۔
ابھی چند روز کے دوران یہ منظر دیکھنے میں آیا کہ اِدھر کے اُدھر ہو گئے اور اُدھر کے اِدھر ہو گئے۔ پہلے وہ ایک دوسرے کو ''گالیاں‘‘ دیا کرتے تھے اور اب محبتیں نچھاور کرتے ہیں۔ لیڈر صاحب اپنی دانست میں شہید لیڈر کے پیرو کار ہیں‘ لیکن اس کا بال بچہ ایک ایسے شخص کے رحم و کرم پر ہے ‘ جس کا رحم و کرم کے ساتھ دور کا بھی واسطہ نہیں۔سنا یہی ہے کہ پہلے بی بی شہید کو کرائے کے قاتلوں سے جدید ترین پستولوں کے ذریعے نشانہ بنوا کر شہید کیاگیا۔اس کے بعد بھوکے شیر کی طرح جھپٹتے ہوئے دانتوں‘ کھروں اور پنجوں سے شکار کو درجہ بدرجہ لقمہ شکم بنایا گیا۔یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ دوسری طرف شیر نے اپنی کچھار میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ بچوں‘ جوانوں اور بزرگوں کو اپنی چھایا میں محفوظ کرر کھا ہے۔شیرکا ایک گھر نہیں ہوتا۔ ہمارا شیر بھی اصلی شیر کی طرح اپنے تیار کئے ہوئے ''غاروں‘‘ میں قیام فرما رہتا ہے۔کبھی کبھی اپنا سر اور کھلے منہ کے دانت دکھاکر مخالفین کو دہشت زدہ کرتا ہے اور کبھی کبھی اپنے دونوں بازئوں میں لپیٹ کر بظاہر اظہار محبت کرتا ہے‘ لیکن بغل گیری کے دوران‘ پسلیاں بھی ایک ایک کر کے توڑتا رہتا ہے۔حریف و حلیف کی یہ جوڑی اپنی پوزیشنیں بدلتی رہتی ہیں۔کبھی دونوں مل کر الگ الگ دسترخوانوں کو چٹ کر جاتے ہیں اور کبھی ایک دوسرے کا دستر خوان بدل کر شوقِ تناول فرماتے رہتے ہیں۔اس کھیل میں یہ ناچیز کیسے لطف اندوز ہو سکتا ہے؟ ہماری قومی سیاست گرگٹ کی طرح رنگ بدلتی رہتی ہے۔میں گر گٹ کے رنگوں پر کیسے نظر جمائوں؟ یہی وجہ ہے کہ میں پاکستانی سیاست کے'' شیروں‘‘ اور'' مگر مچھوں‘‘کی سیاست سے بہت ڈرتا ہوں۔یہ '' شیر اور مگر مچھ‘‘ ایک دوسرے کی دُمیں کھینچتے رہتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں کیا لکھوں؟ کبھی صحرائوں کے پار چلا جاتا ہوں اور کبھی سمندروں کی لہروں کی لپیٹ میں آتا رہتا ہوں۔ بہت دنوں سے مجھے شیر اور مگر مچھ کے مقابلوں سے ڈرلگتا ہے۔ شیر کی تعریف کروں تو مگر مچھ اپنا جبڑا کھول کر لپکتا ہے۔مگر مچھ سے بھاگوں تو وطن عزیز کے خزانے ہضم کر جاتا ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ پاکستان‘ یعنی شکار گاہ میں‘ دونوں فریق جی بھر کے شکار کھیلتے ہیں۔ ہمارا وطن شکاریوں سے بھرا ہے۔ ستر سال ہونے کو آئے‘ شکار کا عمل جاری ہے۔شکار کرنے والے بھی کافی ہیں اور شکار بننے والے اَن گنت۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں