قدرتی ماحول میں انسانی مداخلتوں کے نتیجے میں کرۂ ارض کی خراب سے خراب تر ہوتی حالت پر غورو خوض کرنے اور اس سے بچنے کے لئے ایک بار پھر پولینڈ میں کانفرنس منعقد ہوئی‘ جس میں ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلیوں کا جی بھر کے رونا رویاگیا اور کہا گیا کہ اس کی وجہ سے دنیا نا صرف تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے ‘بلکہ فطری دنیا اور تہذیبیں اپنے خاتمے کے نازک ترین موڑ پر پہنچ چکی ہے۔وقت بڑی تیزی کے ساتھ ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے؛ اگر اب بھی ہوش کے ناخن نہ لئے گئے‘ تو آنے والے دنوں میں ‘نہ سانس لینے کے لئے ہوادستیاب ہو گی۔ نہ پینے کو پانی ملے گا اور نہ کھانے کو روٹی۔خدا نہ کرے ایسا کبھی ہو؟ بھارت کے دارا لحکومت دِلّی میں سانس لینا ‘جس طرح سزائے موت بن چکا ہے‘ اسے دیکھ کر لگ یہی رہا ہے کہ کیسے قیامت سے پہلے قیامت آنے والی ہے؟ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل‘ اینٹو نیو گتریس نے دوٹوک الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ کئی ملکوں کے لئے موسمیاتی تبدیلی پہلے ہی زندگی اور موت کا مسئلہ بن چکی ہے؛ اگر فیصلہ کن اقدام نہ کئے گئے‘ تو صورتحال سنبھلنے میں نہیں آئے گی۔اس وقت دنیا کو موسمیاتی تبدیلی کی شکل میں جو سنگین ترین بحران درپیش ہے‘اس کے نتیجے میں سیلابوں‘ طوفانوں‘ قحط سالی اور گرم لہروں کے تھپیڑے چلنے سے‘ دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر اموات ہوں گی۔ بارشوںمیں اضافہ ہو گا۔ موسم گرما کا دورانیہ بڑ ھ جائے گا۔گلیشیر پگھل جائیں گے اور سمندر کی سطح بلند ہو جائے گی۔ موسم کے یکلخت تبدیل ہونے کی وجہ سے جانداروں کی بہت سی نسلیں نا پید ہو جائیں گی۔سمندروں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے جذب ہونے سے ان کی تیزابیت بڑھ جائے گی‘ جس کی وجہ سے زیر آب حیاتیاتی دنیا ‘خاص طو رپر مونگے کی چٹانیں تباہ ہو جائیں گی اور قدرتی توازن کے بڑھ جانے کا بھیانک بحران سامنے آئے گا‘ کیونکہ خشکی کے مقابلے میں پانی تین گنا زیادہ ہے۔ عالمی ادارہ صحت(WHO) نے وارننگ جاری کی ہے کہ ملیریا اور پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے ساتھ ساتھ قحط سالی سے لاکھوں افراد موت کے منہ میں چلے جائیں گے۔
انسان کاموسمیاتی تبدیلیوں کے ساتھ کھلواڑ کوئی دس بیس سال کا کیا دھرا نہیں ؟ یہ ہزاروں سال کی نااہلی ہے‘ جو ترقی کے نام پر کی جارہی ہے۔ آج خلاکو جس طرح مصنوعی سیاروں کا کباڑخانہ بنا کے رکھ دیا گیا ہے‘ اس سے لگتا ہے کہ آنے والے سالوں میں دنیا پر کہیں دھات کے ٹکڑوں کی بارش نہ ہونے لگے۔یہ تو ہے ہی مادی (Materialsitic) تباہیوں کی صورت۔ غیر مادی بربادیوں کی صورت حال تو اس سے کہیں زیادہ گمبھیر ہے‘ جو اب اتنی گمبھیر ہو چکی ہے کہ سوچ کے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ موبائل‘ انٹرنیٹ‘ وائی فائی‘ کمپیوٹر ‘ سوشل میڈیا اور آن لائن طریقہ زندگی‘ دوسرے لفظوں میں ڈیجیٹل لائف نے آدمی کو انسانی اور اخلاقی طو ر پر اتنا نیچے گرادیا ہے کہ اب اس کے پاس حسُنِ کردار نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہ گئی۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ان چیزوں کی بدولت کینسر اور دوسری جان لیوا بیماریوں کا سبب بننے والی تابکاری سے خود آدمی کے ساتھ ساتھ دنیا کی ساری مخلوقات کا مادی نقصان ہو رہا ہے۔ اعداد و شمار اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ1750ء میں دنیا میں جب صنعتی انقلاب برپا ہوا‘ اس وقت سے کرہ فضا میں اتنی کاربن ڈائی آکسائیڈ اور متھین جیسی زہریلی گیسیں شامل ہو چکی ہیں کہ اتنی بڑی مقدار گزشتہ8لاکھ برسوں میں فضا میں شامل نہیں ہوئی تھی۔اب تو ڈیجیٹل لائف ‘کاربن میں اضافے کا سب سے بڑا سبب بنی ہوئی ہے۔ انٹرنیٹ اور وائی فائی کھولنے کا مطلب ہی کاربن کا اخراج ہوتا ہے۔ یومیہ 35لاکھ مرتبہ انٹرنیٹ سرچ کے حساب سے دنیا کا سب سے بڑا سرچ انجن گوگل فضا میں تقریباً40فیصد کاربن بڑھانے کا سبب بنتا ہے‘ جس طرح ماضی کے کئے دھرے کا نتیجہ اب سامنے آرہا ہے۔اسی طرح آج کی ڈیجیٹل لائف کے نتائج بھی آنے والے دنوں میں انتہائی خطرناک برآمدہوں گے۔
اقوام متحدہ نے موبائل‘ کمپیوٹر اور دوسرے الیکٹرانک آلات پر کھیلے جانے والے آن لائن اور ویڈیو گیم کو بیماری کے زمرے میں شامل کرتے ہوئے‘ ان سے بچنے کے لئے انتباہ بھی جاری کر دیاہے۔واٹس ایپ‘ فیس بک اور ایسے ہی دوسرے سوشل میڈیا سے نجات حاصل کرنے کے لئے کوششیں کیوں نہ کی گئیں؟ نتائج پر توجہ صرف کرنے کی بجائے کیوں نہ اسباب پر قدغن لگادی جائے؟ سوال یہ ہے کہ آج دنیا کی یہ حالت کیسے ہوئی؟ کس نے دنیا کا قدرتی موسمیاتی ماحول خراب کیا؟ کس نے زمین پر قدرتی زندگی کا توازن بگاڑا؟ظاہر ہے یہ ''جرائم‘‘ آدمی ہی نے کئے ہیں تو پھر ان کی سزائیں بھی اسی کو بھگتنا پڑیں گی۔یوں کہا جائے کہ اسے تو ان کی کئی گنا زیادہ سزائیں ملنی چاہئیں‘ کیونکہ انسان نے اپنے ساتھ ساتھ ان بے زبان جانوروں اور نباتات کا جینا بھی دوبھر کر دیا ہے‘ جن کا قدرتی توازن کو ڈانو ڈول کرنے میں کوئی کردار نہیں رہا ہے۔ کیا یہ بھیانک صورت حال یکبارگی نازل ہوئی ہے؟ کیا انسانیت کو شرم سار کر دینے والے لرزہ خیر غیر انسانی واقعات‘ بیماریوں اور قدرتی آفات کی شکلوں میں آدمی کو سنبھلنے کے مواقع نہیں ملے؟آگے جو بھی ہو ‘لیکن سچائی یہی ہے کہ ہم اسباب و علل کو تو دور نہیں کرتے‘ بس ان کے نتائج کو دور کرنے کی کوششوں میں غلطاں و پیچاں رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میںکسی برائی کا خاتمہ نہیں ہوپاتا؛ اگر یہی چلن بر قرار رہا تو یہ بات گرہ میں باندھ لی جائے کہ حالات کبھی ٹھیک نہیں ہو سکیں گی۔ آج دنیا کی جان پر بن آنے کے بعد کانفرنسیں اور اجلاس برپا کرنے پر جو توجہ صرف کی جا رہی ہے‘ وہی توجہ اگر موسمیاتی تبدیلی اور عالمی حدت خیزی کی اصل جڑوں(Root Causes) کو تلاش کرنے کی جستجو میں صرف کی جاتی‘ تو ماحولیات اور دوسرے مسائل پر بہت حد تک قابو پالیا گیا ہوتا۔