"NNC" (space) message & send to 7575

بھارتی اقلیتیں!

کوئی بھی سیکولر‘ جمہوری‘ سوشلسٹ اور آئینی ریاست اس وقت تک‘ ایک آئیڈیل سٹیٹ نہیں کہلا سکتی یا اپنے دعویٰ پر پورا نہیں اتر سکتی‘ جب تک اس ریاست کی اقلیتیں عدم تحفظ کے احساس سے کلی طور پر آزدا نہ ہوں اور اندیشیوں اور خطرات سے محفوظ اور اکثریت کے جبر کا ان کوسامنا نہ ہو‘ اس لحاظ سے اگر آج ہم بھارت میں اقلیتوں کے حالات کا موازنہ ان مسلم ممالک کی اقلیتوں سے کریں‘ جہاں آمریت اور بادشاہت کے پنجے گڑے ہوئے ہیں یا جمہوریت کی گردن فوج کی گرفت میں ہے‘ تو ہم اپنا سینہ پھلا سکتے ہیں‘ ایڑیاں اونچی اور سر فخر سے بلند کر سکتے ہیں اور دعویٰ کر سکتے ہیں کہ بھارت میں اقلیتیں خصوصاً مسلمان ‘آئینی طور پر پوری طرح محفوظ ہیں اور اکثریت کے جبر سے تحفظ کے لئے ان کو آئینی ضمانت بھی ملی ہوئی ہے ‘لیکن جب اس آئینی ضمانت کا زمین پر حشر دیکھتے ہیں تو تشویش ہونا فطری بات ہے‘ جو بھارت کی سیکولر‘ جمہوری‘ سوشلسٹ اور آئینی ریاست کے امتیازی وصف اور اس کے دعوئوں پر سوال کھڑا کرتی ہے؟
بھارت کی سیاسی اور سماجی تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے یہ مانتے ہیں کہ ماضی قدیم میں ہندوستان میں اکثریت اور اقلیت کا یہ تصور نہیں تھا‘ جو آج ہم دیکھتے ہیں۔ یہ تصور انگریز گورنر لارڈ کرزن کے دماغ کی اپج‘ انگریزوں کی سیاسی مصلحت اور ہندو اورمسلم فرقہ پرستوں کی سیاسی ضرورت کی دین ہے۔یہاں یہ بات بھی دھیان میںرکھنی چاہئے کہ جو ضمانت اقلیتوں کو آئین ِ ہند نے آزادی کے فوری بعد دے دی تھی‘ اس کا خیال اقوام متحدہ کو 18دسمبر1992ء آیا اور عالمی سطح پر مذہبی‘ لسانی اور نسلی اقلیتوں کے حقوق کا اس نے اعلامیہ جاری کیا۔ یہ اس لحاظ سے بھی کافی اہم تھا کہ پہلی مرتبہ اقلیت کی تعریف عالمی سطح پر طے کی گئی اور پہلی مرتبہ اقلیتوں کے حقوق پر اقوام عالم نے توجہ دی۔ یہ اور بات ہے کہ ویٹو پاور رکھنے والے دنیا کے بڑے ممالک کے شکنجہ میں کسے ہوئے‘ اس عالمی ادارہ کی طرف سے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی آج تک کوئی عملی پیش رفت سامنے نہیں آئی۔ بھارت کی اقلیتوں کو جو آئینی ضمانت ملی ہے‘ اس کا سہرہ عام طور پر بھارت کی آئین ساز کمیٹی کو جاتا ہے۔ آئین ساز کمیٹی کے جو ارکان اس کو ضروری سمجھتے ہیں‘ ان کی نظر میں وہ تمام اندیشے اور خطرات تھے‘ جو اقلیتوں کو آزاد بھارت میں پیش آسکتے تھے۔ ان کے اندیشوں اور خطرات نے ان کی زندگی میں ہی اپنا اثر دکھانا شروع کر دیا تھا‘ جو آج کل کے بھارت میں زیادہ خطرناک صورت اختیار کر چکے ہیں۔اس کمیٹی نے آئین میں اقلیتوں کے حقوق سے تعلق رکھنے والے آرٹیکل25تا30کے تحت اقلیتوں کو مذہبی‘ لسانی‘ تعلیمی اور ثقافتی حقوق کی آئینی ضمانت کو شامل کیا تھا‘ اس کے تحت مذہبی آزادی‘ مذہبی ارکان اور رسوم کی ادائیگی‘ مذہبی تبلیغ و تشہیر‘ اپنی پسند کے تعلیمی‘ خیراتی اور مذہبی اداروں کا قیام‘ اس کے لئے زمین جائیداد خریدنے کا حق‘ کسی مذہبی امور کے لئے ٹیکس میں چھوٹ‘ کسی رسم میں شامل ہونے کے ساتھ کسی سرکاری یا غیر سرکاری امداد یافتہ تعلیمی ادارہ میں مذہبی رسوم کی ادائی پر پابندی‘ علیحدہ زبان اس کے علیحدہ رسم الخط‘ ثقافت ا ور کلچر کی آزادی‘ مذہبی و لسانی اقلیتوں کو اپنے اداروں کے قیام‘ انتظام و انصرام کے ساتھ ان کو چلانے کی آزادی اور اپنے تعلیمی اداروں میں تعلیم کا اختیار‘ اسی کے ساتھ بعد میں44ویں آئینی ترمیم کہ اگر کسی اقلیتی ادارے کی جائیداد‘ سرکار مفاد عامہ کے تحت تحویل میں لے گی ‘تو اس کوبازار کے بھائو کے مطابق قیمت ادا کی جائے گی۔
ان تمام تر آئینی ضمانتوں کے باوجود‘ سیاسی جماعتوں اور حکومت نے ہر سطح پر اپنی خفیہ پالیسی کے تحت‘ اقلیتوں خاص طور پر سب سے بڑی مسلم اور عیسائی اقلیت کو Exclusionمحرومیت کا شکار بنا دیا ہے۔ مذہبی‘ سیاسی‘ سماجی‘ معاشی اور اقتصادی ‘نیز ہر سطح پر اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔مسلم مخالف فسادات کے بعد‘ مسلم نوجوانوں کے خلاف دہشت گردی کے بے بنیاد الزامات لگا کر ان کو ناحق پھنسایا گیا۔ایسا نہیں کہ فسادات کا سامنا صرف مسلمانوں کو ہی کرنا پڑا‘ بلکہ1984ء کا سکھ مخالف فساد بھی کچھ کم لرزہ خیز اور انسانیت سوز نہ تھا‘ جس میں سکھوں کے گلے میں جلتے ٹائر ڈال کر زندہ نذر آتش کر دیا گیا۔ کافی عرصہ تک سکھ نوجوان بھی سکھ دہشت گردی کے الزامات کے تحت قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے۔بات زیادہ پرانی نہیں جب ایک عیسائی مبلغ کو بچوں کے ساتھ وین میں بٹھا کر زندہ جلا دیا گیا۔
اگرمعاشی محرومی کی بات کریں تو بینک‘ مسلمانوں کو کاروبار اور صنعت کے لئے قرض دینے میں لیت و لعل سے کام لیتے ہوئے انکار کر دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ مسلم علاقوں میں اپنی برانچ کھولنا بھی پسند نہیں کرتے۔ایسا ہی کچھ معاملہ وزارت اقلیتی امور اور مولانا آزاد فائونڈیشن کا ہے‘ان کی ترجیحات میں بھی مسلم اقلیت نہیں ہے۔یہ سب ظاہر کرتا ہے بھارت میں مسلم اقلیت کے خلاف ایک فضا بنائی جا رہی ہے اور یہ ایک Narative (بیانیہ) بن رہا ہے یا بنایا جا رہا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں