دنیا کچھ قوانین کے تحت چل رہی ہے ۔سوال یہ ہے کہ آ پ چاہتے کیا ہیں؟ آ ج کے دور میں جواب یہ ہے کہ یا حاصل کر لو یا ہمیشہ کے لیے خاموشی اختیار کرلو۔امریکی بلاحجت مدہم پالیسیاں دنیا میں ایک افراتفری سی کیفیت پیدا کیے ہوئے ہیں۔بہت سے رہنما اپنی حدود پار کیے ہوئے‘طاقت کے نشے میں سرشار‘اپنے اثرورسوخ کے ابھار اور حریف کو دبانے کی کوشش میںہمیشہ ملیں گے۔ غیر ملکی تنازعات اٹھا کر دیکھ لیں‘کئی ممالک محاصرہ کیے ہوئے ‘کئی ایک دوسرے کو چیلنج کیے ہوئے‘کہیں زمینی تنازعات‘ کہیں معاشی اور کہیں غاصبانہ قبضہ۔ دنیا میں سب کچھ دیکھنے کو ملے گا۔ان مسائل کے تدارک کے لیے نیشنل سکیورٹی کونسل‘انٹرنیشنل کرائم کورٹ اور دیگر ادارے موجود ہیں‘ مگر ان سب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے حالات جوں کے توں ہیں ۔دنیا داری کا کھیل جاری ہے ۔ ایک وقت سے امریکہ دنیا پر غالب آنے اور مغرب کی خوشنودی حاصل کرنے میں مصروف عمل ہے۔لبرل اور برائے نام قوانین اپنی خواہشات کے مطابق ترتیب دیے گئے ‘مغربی اثرورسوخ ہو یا پھر کوئی اور طاقت ور ترقی یافتہ ملک جیسا کہ ماسکو ‘بیجنگ ‘لندن یا واشنگٹن‘ یہ سب ہمیشہ آگے بڑھنے کی دوڑ میں لگے ہیں ۔ اچھا اور دوسروں سے کچھ بڑا کرنے کی جنگ نہ جانے کب سے جاری ہے؟امریکہ اور اس کے اتحادی کئی سالوں سے عالمی نوعیت کی پالیسیاں بنانے میں سرگرم ہیں ۔حدود کا تعین کیا جارہا ہے۔علاقائی قوانین جامع منصوبہ بندی سے ترتیب دیے جا رہے ہیں۔ماضی میں سب نے دیکھا کہ مغرب نے ہمیشہ ''چوہدراہٹ‘‘ چاہی ہے۔دوسری جانب امریکی صدر اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کے لیے بہت سے ملکوں کے اتحادکے حامی نہیں‘ جس کی بہترین مثال یورپی ممالک ہیں ۔ ان کی اتحاد پسندی کئی ملکوں کے لیے درد سر بنی ہوئی ہے اور وہ ان کو الگ کرنے کے درپے ہیں۔
سرحدی حدود کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے یہ نام نہاد رہنما‘ مختلف ادوار میں قوانین اور اصول بدلتے رہے ہیں۔ جارجیا‘کریمیاجیسی ریاستیں جو سوویت یونین کے بعد معرض وجود میں آئیں ‘روس ان کے اردگرد اپنی سمندری طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے مختلف مشقوں اور سرگرمیوں میں مصروف ملے گا۔مغرب میں مختلف سائبر جنگیں دیکھنے کو ملیں گی۔چین اپنے سمندروں میں نئے سیٹلائیٹ نظام کے تحت دھاک بٹھائے ہوئے ہے۔ سعودی عرب اپنے مفادات کے لیے یمن پر دباو ڈالے ہوئے ہے اور حالت جنگ میں ہے۔اسرائیل زمینی قبضے کے لیے فلسطین پر چڑھائی کیے ہوئے ہے۔ کشمیر پر بھارتی غاصبانہ قبضہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔یہ تمام تنازعات یقینا نئے نہیں اورنہ ہی ناحل طلب ہیں‘ مگرہر ملک کو ذ اتی مفادات مقدم ہیں‘جن سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔
امریکہ اور اس کے اتحادی انسانی حقوق کا رونا روتے ہیں۔ حق اور سچائی کے سب سے بڑے علمبردار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ‘جبکہ دوسری جانب ایران جیسے ممالک پر معاشی پابندیاں لگا کر لوگوں کے طرززندگی کو دن بدن انسانیت کے درجے سے گرا رہے ہیں۔اسی طرح عراق اور افغانستان میں مسلمانوں کا بے جا خون بہایا جا رہا ہے۔ایسا صرف نیوکلیئر کی روک تھام یا دہشت گردی کو جواز بناتے ہوئے کیا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ ان قوانین سے ہر وقت بھاگا نہیں جا سکتا ۔بنگلہ دیش‘ میانمار کے روہنگیا مسلمانوں کو پناہ دینے کے سخت خلاف تھا اور انہیں سرحدی حدود میںداخل ہونے سے روکے ہوئے تھا ‘مگر عالمی دبائو کی وجہ سے اس نے نرمی برتی اور کچھ کو پناہ دینے پر رضامندی کا اظہار کیا۔شام کے معاملے میں روس اس وقت دو قدم پیچھے ہٹا‘جب امریکہ ‘یورپی ممالک اور ترکی نے اس پر دبائو ڈالا۔ یہی کچھ سعودی عرب میں بھی دیکھنے کو ملا‘ جب وہ یمنی بندرگاہ حدیبیہ کی وجہ سے جنگ میں شدت لا رہا تھا‘ عالمی سطح پر دباو بڑھا کہ انسانی حقوق کو سلب کرنے سے عالمی سطح پراس کی ساکھ کو نقصان پہنچے گا‘ تب جا کر اس نے نرمی دکھائی۔ صرف یہی نہیں روس کے صدر ولادی میر پوتن کے عزائم سب کے سامنے ہیں۔ جب زمینی قبضہ کی غرض سے کریمیا کے ایک ایجنٹ کا قتل کروایاگیا۔ میڈیا نے اس مسئلے کو خوب ہوا دی‘ اسی طرح جیساکہ جمال خشوگی کے معاملے میں۔تقریباً تما م مسائل اور تنازعات میں ملے جلے حالات ملیں گے۔ کبھی عالمی قوانین کی خلاف ورزی تو کبھی ان کے خوف سے خاموشی۔
2019ء کو ہم ان تنازعات کی رو سے دیکھیں تومنظر نامہ دھندلا سا نظر آئے گا۔کہیں سیدھا راستہ تو کہیں پگڈنڈیاں‘ کہیں ریتلے میدان تو کہیں سمندر۔ ہر جگہ مختلف منظر کشی کیے ہوئے ہیں‘جہاں عالمی قوانین کی دھجیاں اڑائی گئیں۔ گزشتہ سال یمن میںانسانی حقوق کا بحران دیکھنے کو ملا۔2019ء کے آنے سے قبل اقوام متحدہ کے خصوصی‘ ایلچی مارٹن گرانٹ نے عارضی جنگ بندی کروائی اور دونوں فریقین کے درمیان اعتماد کی فضا پیدا کرنے کے لیے اقدامات کیے۔قریباً 4 سالہ جنگ میں سعودی عرب کے دبائو اور محاصرے کے دوران یمنی عوام کو خوراک اور ادویات کی کمی کا سامنا کرنا پڑ ا۔اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق؛ یمنی لوگوں کے پاس کھانے کے لیے خوراک تک نہ تھی۔جنگ 2014ء کے آخر میں شروع ہوئی۔مارچ میں سعودی عرب نے متحدہ عرب امارات کے تعاون سے شدید گولہ باری کا سلسلہ شروع کیا ۔اصل مقصد حوثی باغیوں کا قلع قمع کرنا اوران کا یمن حکومت پر دبائو کوزائل کرنا تھا۔مغربی طاقتیں سعودی موقف کی توثیق کرتی رہیں ۔2018ء کے آخر میں یمنی باغیوںکی جانب سے بھی شدت میں کمی آئی۔اقوام متحدہ نے انتباہ جاری کیاکہ ایسا عمل مزید جاری رکھا گیا تو یمن میں قحط سی صورتحال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔9نومبر2018ء کو امریکہ نے بیان جاری کیا کہ وہ یمن میں مزید جہازوں کی پٹرولنگ میںحصہ نہیں لے گا۔ایسا سٹاک ہوم معاہدہ سامنے آنے کے بعد کیا گیا‘ جس کے مطابق یمنی حکومت اور حوثی باغیوں کے درمیان حدیبیہ بندرگاہ کے اردگرد جنگ بندی ہوگی۔ایسا امریکی دبائو کی وجہ سے بھی ہوا‘کیونکہ اب امریکہ تمام معاملات کو 2019ئمیں حل کرنے کے لیے زور دیے ہواہے۔
یمنی اور حوثی باغی‘ امریکی دبائو کے پیش نظر معاملے کے حل کے لئے رضا مند دکھائی دے رہے ہیں‘ مگر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے سوچ بچار کے لیے وقت طلب کیا ہے۔یور پ‘ اومان اور ایران کی جانب سے حوثی باغیوں پر دبائو بڑھا ۔ یمنی انسانیت سوز واقعے کے بعد افغانستان میںبھی انسانی حقوق کی پامالی جاری ہی۔ 2018ء کے اعدادوشمار کے مطابق ‘ قریباً چالیس ہزارکے قریب معصوم شہریوں کی ہلاکتیں ہوئیں۔دسمبر کے آخر میں ٹرمپ انتظامیہ نے فوجی انخلا کا اعلان کیا۔دوسرے لفظوںمیں کہیںتو واشنگٹن کی جانب سے معاملات کو جنگ کی بجائے افہام و تفہیم سے حل کیے جانے کی جانب اشارہ ملا۔2018ء میں جنگ میں تیزی دیکھنے کو ملی۔ شاید اتنا گھمسان کی لڑائی 17 سال پہلے جنگ کے شروعاتی دنوں میں تھی۔تین دن بعدجنگ بندی ہوئی۔اس لڑائی میں شہریوں کی بہت بڑی تعداد میں ہلاکت کا خدشہ تھا‘کیونکہ طالبان وقتاً فوقتاً ذرائع آمد و رفت ‘ سرکاری املاک کو چن چن کر نشانہ بنائے ہوئے تھے۔ امریکی فضائی حملوں کا بھی کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہ نکل رہا تھا۔ ستمبر 2018ء میں امریکہ نے سفارتکار‘ زلمے خلیل زاد کو تعینات کیا ۔یہ ایک مثبت سگنل تھا۔طالبان رہنما سنجیدہ مذاکرات کے لیے آمادہ ہوئے۔طے پایا کہ امریکہ مسلح افواج کے انخلا کے وقت کا تعین کرے۔اسے طالبان کی جیت کے طور پر دیکھا جانے لگا۔ (جاری)