گزشتہ روز اخبارات میں خبریں شائع ہوئیں کہ بھارت میں ایک بار پھر مسلم دشمنی کی دیوانگی کی لہر اٹھی اور نجانے کتنے کلمہ گو پُر امن شہریوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ یو پی میں بے شمار کٹر ہندو مسلمانوں پر پل پڑے۔ گزشتہ ریاستی انتخابات کے دوران تشدد پسند ہندوئوں نے کھلے عام گروہ بنا کر مسلمانوں کو گھیرائو میں لیا‘ اور تشددکا نشانہ بنایا۔ یہی لہر تھی جس کے نتیجے میں انتہا پسند ہندوئوں نے مسلمانوں کو انتخابی عمل میں شریک ہونے سے بھی روکا۔ ایسے واقعات دہرائے جاتے رہتے ہیں۔ حالیہ صورت حال پر ایک بھارتی قلم کار‘ سہیل انجم نے درد کی کہانی لکھی ہے جو پاکستانی قارئین کے لئے پیش کرتا ہوں۔ گزشتہ روز جو کالم شائع کیا تھا‘ اس کی دوسری قسط باقی ہے۔ وہ کل ملاحظہ فرمائیے گا۔
''بھارت میں یہ عجیب و غریب رواج بن گیا ہے کہ جہاں کسی نے موجودہ حالات پر اظہار اطمینان کیا‘ دائیں بازو کے نظریات کی حامل فوج‘ فوراً حملہ آور ہو جاتی ہے اور مذکورہ شخص کو غدار قرار دے کر‘ پاکستان بھیجنے کا فرمان سنا دیتی ہے۔ اس نظریاتی غنڈہ گردی کا تازہ شکار‘ اداکار نصیرالدین شاہ بنے ہیں۔ ان کے اس انتہائی غیر متنازعہ اور سادہ سے بیان ''نفرت کا زہر چاروں طرف پھیل گیا ہے‘ اس جِنّ کو بوتل میں واپس بند کرنا مشکل ہو گا۔ اب ایک گائے کی موت کو‘ ایک پولیس افسر کی موت سے زیادہ اہمیت دی جا رہی ہے اور مجھے اپنے بچوں کی فکر ہے‘‘ نے ایک طوفان برپا کر دیا گیا۔ نصیرالدین شاہ پر چاروں طرف سے یلغار ہو رہی ہے۔ یہاں تک کہ ممبئی کی نونرمان سینا نے تو ان کے لئے پاکستان کا یکطرفہ ٹکٹ کٹا دیا۔ ان کے بیان پر ''ہائے توبہ‘‘ مچانے والوں میں راج ناتھ سنگھ‘ پرکاکش جاوڈیکر‘ اوما بھارتی‘ انوپم کھیر اور اکشے کمار جیسے لوگ شامل ہیں۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ بھارت جیسا روادار ملک دنیا میں نہیں ہے‘ تو کسی کو ان کے بیان سے سازش کی بو آرہی ہے۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ ان کو اور کتنی آزادی چاہئے؟ تو کوئی کہہ رہا ہے کہ جہاں انہیں ڈر نہ لگے وہاں چلے جائیں۔ حالانکہ نصیرالدین شاہ نے ایک بہت ہی عام بات کہی تھی۔ انہوں نے یہ نہیں کہا تھا کہ انہیں ڈر لگ رہا ہے بلکہ یہ کہا کہ انہیں غصہ آ رہا ہے۔ اسی کے ساتھ انہوں نے اپنے بچوں کے بارے میں فکر مندی کا اظہار بھی کیا تھا۔
اس قسم کا بیان دینے والے وہ تنہا شخص نہیں ہیں۔ ان سے پہلے بھی متعدد سرکردہ شخصیات ایسے خیالات کا اظہار کر چکی ہیں۔ جہاں تک ان کے بیان کا تعلق ہے تو اس میں خلاف حقائق کوئی بات نہیں کہی گئی۔ کیا یہ بات غلط ہے کہ بھارت میں نفرت کا ماحول پیدا کر دیا گیا ہے؟ کیا یہ خیال غلط ہے کہ ایک گائے کی موت کو زیادہ اہمیت دی جا رہی ہے؟ جبکہ انسپکٹر کی موت کو دبایا جا رہا ہے؟ کیا یہ سچ نہیں کہ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے پولیس افسران کو ہدایت دی تھی کہ گائے کشی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے جبکہ پولیس انسپکٹر سبودھ کمار سنگھ کے قاتلوں کو پکڑنے کے بارے میں کوئی حکم نہیں دیا‘ بلکہ یہ کہا کہ یہ ایک حادثہ تھا۔ کیا یہ غلط ہے کہ گائے کشی کے الزام میں تو چار چار بے قصور مسلمان دھر لئے گئے‘ جنہیں اب چھوڑنے کی بات پولیس کر رہی ہے۔ کیا محمد اخلاق‘ پہلو خان‘ اکبر خان اور مظلوم انصاری جیسے مسلمانوں کا قتل عام جو کہ نام نہاد گائے رکشکوں کے ہاتھوں ہوا‘ اسے کوئی اہمیت دی گئی؟ نہیں دی گئی۔ اگر دی گئی تو گائے کے مبینہ ذبیحے کو۔ حالانکہ گائے کے ذبیحے یا سمگلنگ کے نام پر جن لوگوں کو ہلاک کیا گیا وہ یا تو گائے کو پالنے والے تھے یا جانوروں کی خرید و فروخت کرتے تھے۔
گزشتہ ساڑھے چار برسوں میں ایسی متعدد مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں‘ جن میں گائے کی موت کو‘ مسلمانوں کی موت سے زیادہ اہمیت دی گئی۔ نصیرالدین شاہ کی یہ بات بھی غلط نہیں کہ قانون کو اپنے ہاتھوں میں لینے کی کھلی چھوٹ مل گئی ہے۔ بلند شہر کا واقعہ تو حالیہ واقعہ ہے۔ اس سے قبل جانے کتنے مقامات پر ہجوم نے قانون کو اپنی مٹھی میں لیا ہے؟ بے گناہ افراد کے ساتھ ساتھ پولیس
والوں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کھلی چھوٹ کا نتیجہ اس شکل میں برآمد ہوا کہ ایک پولیس انسپکٹر کو مار دیا گیا‘ اور اصل ملزم اب بھی گرفت سے دور ہیں۔ ان ملزمان کو سیاسی پناہ حاصل ہے۔ 2015ء میں جے پور میں ہونے والے ادبی فیسٹیول میں بھی شرپسندوں نے ہنگامہ برپا کیا‘ اب جبکہ وہاں نئی حکومت قائم ہو گئی ہے تو توقع ہے کہ ایسے عناصر کے خلاف کارروائی کر کے ان کی حوصلہ شکنی کی جائے گی۔
نصیرالدین شاہ نے اپنے ایک انٹرویو میں یہ بھی واضح کیا کہ وہ مذہبی آدمی نہیں ہیں۔ انہوں نے اپنے بچوں کو بھی مذہبی تعلیم نہیں دی۔ ان کی بیوی رتنا پاٹھک ایک غیر مسلم خاتون ہیں۔ نصیر مسلمان ہیں یا نہیں‘ ہمیں اس سے کوئی دلچسپی نہیں۔ یہ ان کا ذاتی معاملہ ہے لیکن مسلم دشمن قوتوں کو اس سے دلچسپی ضرور ہے۔ اگر نصیرالدین شاہ نے دوسرے مسلم اداکاروں کی مانند اپنا نام بدل کر ایسا رکھ لیا ہوتا‘ جس سے ان کی مسلم شناخت چھپ جاتی تو وہ کیسا ہی بیان کیوں نہ دیتے؟ ان کے خلاف کوئی ہنگامہ نہیں ہونا تھا؟ انہیں نشانہ ہی اسی لئے بنایا گیا کہ وہ نام کے ہی سہی‘ مسلمان تو ہیں۔ ان کی بیوی کا نام رتنا پاٹھک کے بجائے رتنا بائی یا رتنا خاتون نہیں ہے ورنہ نصیر پر'' لَو جہاد‘‘ کا بھی الزام لگ جاتا۔ ایسے متعدد واقعات دیکھے ہیں کہ ایسے لوگوں کو جن کے نام مسلمانوں جیسے ہیں‘ محض اسی لئے فرقہ وارانہ فسادات میں ہلاک کیا گیا کہ ان کے نام سے ان کی مسلم شناخت ظاہر ہوتی ہے‘ حالانکہ وہ کہتے رہے کہ ہم تو کمیونسٹ ہیں یا ہم عملی مسلمان نہیں ہیں اور یہ کہ ہم تو غیر مسلم کالونی میں رہتے ہیں‘ لیکن انہیں بخشا نہ گیا اور یہ کہہ کر مار دیا گیا کہ تمہارا نام تو مسلمانوں جیسا ہے۔ بہرحال نصیرالدین شاہ کے بیان پر جس قسم کے ہنگامے ہو رہے ہیں‘ وہ ان کی فکر مندی کی تائید و حمایت کرتے ہیں۔ اگر واقعی بھارت دنیا کا سب سے روادار ملک ہوتا تو ایسے بے ضرر بیان پر اتنا ہنگامہ نہ ہوتا؟ یہ ہنگامہ آرائی اس بات کا ثبوت ہے کہ رواداری کی روایت اٹھتی جا رہی ہے اور ایک خاص مکتب فکر کے حامل افراد کی سماج کے ہر طبقے پر اجارہ داری قائم ہوتی جا رہی ہے۔ ان حالات میں یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ بھارت کا ماحول کون خراب کر رہا ہے ''شاہ یا غلام‘‘؟