ملکی سیاست پر اکثر میں نے بے یقینی کے ساتھ‘ انتہائی تذبذب کے عالم میں پیش گوئیاں کیں۔ حکومت کی پیش گوئی کے لئے پارٹی چاہئے۔ پارٹی کو حکومت بنانے کے لئے اکثریت چاہئے۔ اکثریت کو حکومت کرنے کے لئے اپنے ساتھیوں کو ہر وقت ساتھ رکھنا پڑتا ہے اور اگر اکثریت ٹوٹے تو نئی حکومت بن جاتی ہے۔ نئی حکومت میں کوئی پرانی حکمران پارٹی کے اراکین ‘کبھی اقلیت والوں کو حلوہ پوری کی دعوتیں دیتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن حکومت اور اپوزیشن دونوں کے وقتاً فوقتاً ''سربراہ‘‘ بن جاتے ہیں۔ کبھی حکومت کو ممبروں کی ضرورت پڑتی ہے اور کبھی حزب اختلاف کو‘حسب موقع حضرت مولانا کسی نہ کسی حکومت بنانے والے گروپ کو''سہارا‘‘ دئیے رکھتے ہیں۔مثلاً جب بھی انتخابات کے بعد کوئی حکومت بنتی ہے‘ سب سے پہلے حضرت مولانا اپنی خدمات پیش کر دیتے ہیں۔ گنجائش حکومت بننے کی ہو تو حضرت فوراً ہی اپنی خدمات کا'' تھان‘‘ کندھے پر رکھے پہنچ جاتے ہیں۔اگر مولانا حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہوں تو سب سے پہلے بلکہ فجر سے بھی پہلے‘ حکومتی سربراہی کے امیدوار بن جاتے ہیں۔ امیدوار تو وہ کبھی نہیں بنے مگر بننے میں کیا مضائقہ ہے؟ کیونکہ مولانا تو ہر ہنگامی حالت میں کچھ نہ کچھ بنے رہتے ہیں۔ صدر کا امکان ہو تو حضرت صدارتی امیدوار بن کر اپنا قافلہ ساتھ لئے چلتے ہیں۔ درجنوں حامیوں میں سے ایک ایک کو‘ دو دو چار چار والے گروپ کی طرف روانہ کرتے ہیں کہ تم جائو اور ممبر توڑ کے لائو۔ یہ وہ موقع ہوتا ہے جب حضرت خود اقتدار کی کرسی پر براجمان ہونے کے امیدوار بن رہے ہوں۔وہ بنے رہنے کی حالت میں کبھی کامیاب نہیں ہوئے لیکن بنے رہنے کی حالت میں رہنا ‘ ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔
مولانا کی ہمدرد جماعت جب قائد حزب اختلاف بننا چاہے تو وہ اس کے لئے ہمیشہ تیار ملتے ہیں لیکن اکثریت حاصل کرنے سے کبھی نہیں چونکتے۔ان کا سب سے بڑا لطیفہ حالیہ انتخابی دھینگا مشتی کا عالمی میعار کا مقابلہ تھا۔مولانا کا ہر معرکہ ایک سے ایک بڑھ کر تھا۔ مثالیں اتنی ہیں کہ گنتی نہیں کر سکتا لیکن بغیر گنتی کے مولانا کی کامیابیاںہمیشہ اپنے لباس کے اندر کہیں نہ کہیں موجود ہوتی ہیں۔گزشتہ انتخابات کے دوران مولانا بے یقینی کی کیفیت میں ‘ حکومت حاصل کرنے کے لئے سب سے بڑے ''امیدوار‘‘ تھے۔ سیاست کے کھیل میں مولانا کی کہہ مکرنیاںپورے ملک کو امیدو بیم کی حالت میں مبتلا رکھتے ہیں۔صرف تین ماہ پہلے کی بات ہے مولانا بیک وقت اپنے لئے بالا ترین نشست محفوظ رکھنے کے لئے پر یقین تھے۔خدا جانے انہوں نے کون سی امید کو یقین بنا کرعوام کے سامنے پیش کیا۔عمران خان کا کمال یہ تھا کہ انہوں نے وزارت عظمیٰ کا جھنجھناہر کسی کے ہاتھ میں تھما رکھا تھا۔دوسری طرف نوازشریف کے گودام میں کپڑوں کے جتنے تھان پڑے تھے‘ ان کے ہر تھان کے ہر گز پر'' رہبرِ ملت نوازشریف‘‘ درج تھا ۔ ابھی تک وہ تھان برآمد نہیں ہوئے۔
مولانا کے بیشتر مصاحبین نے مشورہ دیا کہ آپ پرانے زمانے کے بینرز لگانے پر ہی گزارہ کریں‘ یہ آپ کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔ایک تو مجھے فلیکس بہت تنگ کر رہا ہے۔ سیاسی کارکن ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ ہمارے فلیکس سب سے زیادہ ہوں گے۔ میں بھی اپنی طرز کا انوکھا بُدھو ہوں۔ اچھا بھلا بینروں پر گزارہ کر رہا تھا کہ بیچ میں فلیکس آدھمکے۔ان پر لکھا کچھ جاتا ہے اور دوسری طرف سے پڑھا کچھ جاتا ہے۔ایسے فلیکسوں کا کیا فائدہ؟ جو ایک طرف سے کچھ دکھائی دیں اور دوسری طرف سے کچھ؟ زیادہ تر یہ بینرز حضرت مولانا کے ہوتے ہیں۔مولانا کا تازہ ترین معرکہ صدارت کی دوڑ میں سارے امیدواروں کی ''لپک جھپک ‘‘ میں ایسی'' مات ‘‘دی جیسے انتخابات کے موسم میںایک سے ایک بڑھ کے معرکہ انجام دیا جا رہا ہو لیکن اس معاملے میں نواب امبر شہزادہ اپنے معرکے کی رونق لگا دیتا ہے۔معرکے تو خیر مولانا نے بھی کمال کے انجام دئیے ہیں لیکن نواب امبر شہزادہ کے معرکے واقعی کمال کے ہیں۔ اگر کسی ایک معرکے میں نواب صاحب منتخب ہو جاتے تو ان کی کمر ٹوٹنے سے بچ جاتی۔ نواب امبر شہزادے کے مقابلے میں جو امیدواراترتے وہ بھی'' امبر شہزادے‘‘ ہی ہوتے۔ نواب صاحب کے مقابل آٹھ دس امیدوار ضرور میدان میں پیٹھ ٹھونک کے سامنے آتے اور ایک سے ایک‘ دوسرے سے دوسرا مقابل امیدوار کو درجنوں ووٹوں سے شکست دے جاتے۔
مولانا صاحب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ مودی سے بھی زیادہ تیز رفتاری سے اعلیٰ منصب کے انتخابات میں امیدوار بن جاتے ہیں ۔ عوام کی توقعات پر بری طرح پورا اترتے ہیں۔ مولانا حالیہ صدارتی انتخاب میں ملک کے سربراہ بننے کے لئے میدان میں اترے تو پورے شہر کے بچے کاغذ کی ٹوپیاں اور ہاتھوں میں رنگ برنگے کاغذ تھامے ایوانِ صدر پہنچ گئے اور گھر جا کے والدین سے کہتے ''ابو ہماری موج ہو گئی‘‘۔سلسلہ مولانا فضل الرحمن کے لئے جاری رکھنا مشکل نہیں آسان ہوتا ہے لیکن مولانا کے سامنے آسان کام کرنا بھی دشوار ہے ۔ مولانا کے مقابل جتنے بھی امیدوار آئے‘ سب کے سب'' شکست ‘‘کھاتے ر ہے۔ باتیں تو بہت سی ہیں لیکن کالم حضرت مولانا کے قصوں سے دراز نہیں ہو سکتا۔ آخری بات یہ کہوں گا کہ مولانا کے سیاسی اتحادیوں نے انہیں اعلیٰ عہدے کا منصب جیتنے کے لئے میدان میں اتارا۔ مولانا جیت تو نہ سکے مگر کہتے ہیں کہ ایک ''رشتہ ‘‘ضرور لے آئے۔ آج کل وہ زیادہ راتیں غیر سیاسی محفلوں میں گزارتے ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں عمران خان کے سوا تمام امیدوار وزیراعظم بننے کے لئے دل و جان سے برسرپیکار تھے۔ یہ اور بات ہے کہ ان کا دل اپنے پاس نہیں رہا اور ''جان بلب‘‘ امیدوار سیاست میں اعلیٰ عہدوں کی امیدیں توڑ بیٹھے ہیں۔ اب کے جمہوریت کسی اور طرز کی ہو گی؟اس میں سب کچھ ہو گامگر جمہوریت نہیں ہو گی؟