خزانے پہلے لوٹے جا چکے‘ شاہی رقوم اور دیگر اثاثے ایک پارٹی لے گئی۔ بھاری بھرکم نقد رقوم دوسری پارٹی لے اُڑی۔تیسری پارٹی ‘جس کی نظریں نئی نئی رقوم اور اثاثوں پر ہیں‘ وہ پہلے مرحلے میں عالمی سمجھوتے سے ‘اپنے حصے کے اثاثے اور نقدی بٹورے گی‘ لیکن یہ سارے کام صلح صفائی سے ہونے والے نہیں لگتے۔حصہ پتی کی تقسیم کے فیصلے ابھی ابتدائی مراحل میں ہیں۔ سب سے اچھا وہ رہا‘جو تیرتی ہوئی دولت سمیٹ کر پتا نہیں کس کے نام کر گیا؟ کچھ بیٹوں کے نام بتایا جا رہا ہے۔ کچھ بیٹیوں کے نام۔ کچھ پتا نہیں کس کس کے نام؟ لیکن پہلی دیگوں کا مال اور ملائی پہلا فریق ہضم کر گیا۔ اب وہ اگلی اقساط میں اپنے لئے نئے حصے کو اڑانے کے لئے مال و متاع سمیٹنے میںمصروف ہے۔ نمبرٹو چپکے چپکے اورخاموشی سے خزانے سمیٹ رہا ہے‘ جبکہ سندھ اور پنجاب کے زرعی اور عمارتی حصے گھڑپ ہو رہے ہیں۔ زرعی‘ شہری اور عمارتی اثاثوں پر قبضے اپنی اپنی خصوصی مہارتوں کے مطابق کئے جا رہے ہیں اور سب سے زیادہ مقابلہ بیرونی دنیا میں چھپا کر رکھے ہوئے اثاثوں کا ہے۔ زیادہ مال ''نمبر ایک اور دو‘‘ نے تیرتے ہوئے مال غنیمت کواپنے مقبوضہ اثاثوں پر ٹھپے لگا کر لپیٹا۔مال و متاع کے اس دوسرے حصے میں بہت سے شرکا‘ تقسیم میں اپنا اپنا حصہ مانگ رہے ہیں۔تازہ ترین حصے دار خاموشی سے اپنے حصے پر ٹھپے لگا رہے ہیں۔یہ ٹھپے '' نا معلوم اثاثوں ‘‘ پر لگ رہے ہیں۔ کہیں زرعی زمین ہے۔ کہیں عمارتوں کی صورت میں اثاثے اور کہیں بیعا نہ دے کر قیمتی مال پر اپنا قبضہ مستحکم کیا جا رہا ہے۔ نئے دعوے داروں کے '' حصے‘‘ بنا ئے جا رہے ہیں ۔ ہر چند ابھی تازہ دم دعوے داروں کے قبضے میں کچھ نہیں آ یا‘ لیکن انتہائی خاموشی سے‘ دھیرے دھیرے اور چپکے چپکے ''لاوارث اثاثوں‘‘ کو دبوچنے میں تیز رفتاری سے کام لیا جا ر ہاہے؛ اگرچہ دعوے دار نئے ہیں ‘لیکن قبضے میں وہ بھی کسی سے کم نہیں؟
تیسرا دعوے دار اپنے گروہ کو تیزی سے منظم کرنے میںمصروف ہے۔کسی کو معلوم نہیں؟ کہ وزیراعظم ہائوس کس بہانے سے دبوچاجا رہا ہے؟ فی الحال قبضہ جمانے کے لئے مختلف نشانیوں اور دعوے داریوں پر ٹھپے لگ رہے ہیں۔ یہ دعوے داری بنیادی اصولوں کی روشنی میں پختہ کی جا رہی ہے۔یونیورسٹی‘ لائبریری یا مزید اخلاقی بنیادوں پر عمارتیں دبوچی جا رہی ہیں۔ نام تو اعلیٰ درجے کے تعلیمی اداروں کا لیا جا رہا ہے‘ لیکن ایسی ''متاعوں‘‘ پر حصے داری کے دعوے کرنے والوں کا اصولی حق ثابت کرنا '' مشکل ‘‘نظر آرہا ہے‘ مثلاً :اسلامیہ کالج پر دعوے داری عین بر وقت ثابت کر کے ہتھیائی جا چکی ہے‘اسی طرح ایک یتیم خانے کی انتہائی قیمتی زمین ''خیرو عافیت‘‘ کے ساتھ تحویل میں لی جا چکی ہے‘جو امراء تاریخی شعور رکھتے ہیں‘ وہ آج تک زمینی دعوے کرتے ہوئے مقدمے لڑ رہے ہیں۔قدیم لاہور ی خاندان جن کے ورثا پرانے لاہور پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کررہے ہیں‘ ایسی ایک دعوے داری مجھ پر بھی ٹُوٹ پڑی تھی۔ میں‘ منیر نیازی اور قالینوں کی دھلائی کی ایک معزز شخصیت پر ایک عمارت جبری ملکیت بنا دی گئی۔ اس جگہ کا نام رائل پارک تھا۔ اب پتا نہیں کیا ہے؟ اچانک ایک صبح ہمارے دروازوں پر حیرت انگیز نوٹس چسپاں کر دیا گیا کہ ''آپ ایک متروکہ جائیداد پر قابض ہیں‘ کیوں نہ زیر قبضہ عمارت کی ملکیت آپ کے سپرد کر دی جائے‘‘۔ قالین کی دھلائی کا کارخانہ نسبت روڈ پر تھا‘ جبکہ ہماری مقبوضہ' 'عمارت‘‘ اس وقت رائل پارک کے نام سے معروف تھی۔ میں اور منیر نیازی دونوںیہ نوٹس پڑھ کر انتہائی پریشان ہو گئے‘ جس میں بتایا گیا تھا کہ آپ اس عمارت کے جن حصوں پر مقیم ہیں‘کیوں نہ یہ آپ کے نام الاٹ کر دی جائیں؟ تلاش اور جستجو کے بعد متروکہ عمارت ڈھونڈنے میں کامیاب ہونے کے بعد‘ ایک افسر اعلیٰ کی طرف سے ہم دونوں کی طلبی ہوئی۔ افسر مذکور نے چائے اور بسکٹ کھلانے پلانے کے بعد پیش کش کی کہ آپ دونوں جائز طور سے مقبوضہ عمارت کے ایک حصے پر قبضہ کئے بیٹھے ہیں ‘کیوں نہ یہ آپ کو الاٹ کر دی جائے؟ منیر نیازی اور میں دونوں ہی بے حد پریشان ہوئے کہ اگرایک لاوارث عمارت کے جزوی حصو ں پر ہم نے قبضہ جما لیا تو معلوم نہیں بعد میںکیا کیا ذمہ داریاں پڑ جائیں؟ اور ملکیت کے عوض بھاری رقوم ادا کرناپڑیں۔ منیر نیاز ی نے کہا کہ ہم سوچ کر جواب دیں گے۔
یہ وہ دور تھا کہ جب لوگ بے تحاشا متروکہ املاک ڈھونڈتے پھر رہے تھے اور ہم اپنے حصے کی عمارتوں پر قبضہ لینے سے خوف زدہ تھے۔اس لاعلمی کا نتیجہ یہ ہوا کہ مجھے اپنا گھر حاصل کرنے کے لئے چالیس برس بھٹکنا پڑا۔میں زمین کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے کو خریدنے میں کامیاب ہو گیا اور مکان بنالیا۔ یہ سارا قصہ یاد اس لئے آیا کہ مجھے زمین کا قبضہ سچ مچ لینے پر بے حد پریشانی ہوئی‘ جبکہ منیر نیازی نے ایک رہائشی آبادی میں گھر بنانے کی جگہ خرید لی۔ سچی بات ہے ‘ہم دونوں پریشان تھے۔ منیر نیاز ی نے گھر تو بنا لیا‘ لیکن جس کمرے میں بیٹھ کر وہ مطالعہ کرتے تھے‘ اس میں داخل ہونے کا راستہ تین فٹ اونچا تھا۔ جس کے باہر د وزینے بنے تھے۔ منیر نیازی آخری دنوں میں اپنے کمرے کے اندر داخل ہونے سے معذور تھے۔ مددگاروں کا سہارا لے کر اپنی خواب گاہ‘ ڈرائنگ روم اورڈائننگ روم میں داخل ہوا کرتے۔ جس روز کوئی مددگار نہ ملتا ‘ چار پانچ دن اسی حالت میں گزارنے پر مجبور ہوتے۔
ان دنوں'' نئی‘‘ متروکہ املاک پر قبضے کرنے والے عام آدمی تو نہیں ہیں‘ لیکن عوام کے ووٹوں سے عمارتیں‘ زرعی زمینیں اور کمرشل عمارتیںہتھیانے والوںمیں ہم جیسے لوگ نا اہل قرار پائے ہیں۔ سب سے پہلا شخص‘ زمین کا دیرینہ قابض بن کر بیٹھ گیا اور آج تک قبضے لینے میں مصروف ہے۔ دوسرا جو شخص شروع میں شہری زمینوں پر قابض ہونے میں کامیاب رہا ‘ اب وہ زرعی زمینوں کا بھی ''فاتح‘‘ ہے۔آپ پوچھیں گے کہ تیسرا آدمی کون ہے؟وہ تیسرا آدمی ایک کھلاڑی ہے‘ وہ بھی قدم بقدم رئیسی پر قبضہ جمانے میں مصروف ہے۔ ابھی لارڈز‘ زرعی زمینیں‘ جاگیریں‘ تجارتی عمارتیں اور نجانے کیا کیا قیمتی اثاثے ‘موصوف کے حواریوں کے قبضے میں آئیں گے۔ابھی قیمتی اثاثوں پرقبضوں کی ابتدا ہے۔ بعد از تقسیم جو نئے رئیس بنے‘ ان کی طرف تومیلی آنکھ سے دیکھنا ممنوع ہے‘ لیکن نئے نئے جاگیرداروں‘ سرمایہ داروں اور درس گاہوں کے مالکان‘ پتا نہیں کب تک پاکستان کے ''مظلوم‘‘ اثاثوں پر قبضے جماتے رہیں گے ؟ اگلی نسلوں کی قسمتیں کب کھلیں گی؟