بھارت میں آج ہر خاص و عام کی زبان پر یہی سوال ہے کہ ملک کا ماحول ایسا کیوں ہو گیا ہے؟ کہ ہر طرف خو ف و ہراس کا ماحول بن گیا ہے۔آزادی کے ستر سال بعد اگر ایمرجنسی کی مدت کو نکال دیں تو یہ پہلا ایسا موقع ہے کہ ملک کی جمہوری قدریں پامال ہو رہی ہیں؟ آئینی اداروں پر حملے ہو رہے ہیں۔ جن آئینی اداروں کو آئین میں آزادانہ طور پر کام کرنے کی آزادی کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا رہا ہے‘ ان کے کاموں میں دخل اندازی کی جا رہی ہے۔ حد تو تب ہو ئی جب آزاد ہندوستان میں پہلی بار سپریم کورٹ کے چار چار ججوں نے مجبور ہو کر میڈیا میں آکر عوام کی عدالت میں اپنی بے بسی ظاہر کی اور بتایا کہ کس طرح اس انصاف کے مندر کہے جانے والے سپریم کورٹ کے کام کاج کو حکومت کے اشارے پر چلایا جا رہا ہے؟ اس وقت کے چیف جسٹس دیپک مشرا پر انہوں نے اپنی من مرضی چلانے اور کچھ معاملات میں اپنی مرضی کے فیصلوں کے لئے ججوں پر دبائو ڈالنے کا الزام لگایا تھا۔ حکومت اس وقت کوئی جواب نہیں دے پائی تھی۔ اس کے بعد آر بی آئی کا معاملہ سامنے آیا جب وزیراعظم مودی کے پسندیدہ آر بی آئی گورنر‘ ارجت پٹیل اور دوسرے افسران نے حکومت پر الزام لگایا کہ حکومت بینکوں کے حالات سدھارنے کے لئے آر بی آئی حملہ کر رہی ہے لیکن حکومت نہیں مانی کیونکہ آر بی آئی بورڈ میں آر ایس ایس سے جڑے لوگوں کو حکومت نے نامزد کیا ہوا ہے۔ انہوں نے حکومت کے طرز عمل کو صحیح ٹھہرایا۔اسی طرح الیکشن کمیشن نے کئی بار تسلیم کیا کہ ای وی ایم مشینیں خراب ہوتی ہے‘ یہ فکر کا موضوع ہے۔ سی بی آئی جو ملک کی سب سے بڑی جانچ پڑتال کی ایجنسی ہے‘ اس پر تو‘ یو پی اے کی حکومت میں الزامات لگتے رہے ہیں کہ وہ حکومت کے دبائو میں کام کرتی ہے۔ سپریم کورٹ نے بھی اسے پنجرے میں قید توتا بتایا تھا لیکن موجودہ دور حکومت میں تو سی بی آئی پنجرے کا ایسا توتا بن گیا ہے‘ جس کے پر کاٹ کر پیر بھی باندھ دئیے گئے ہیں۔
الزام لگ رہے ہیں کہ مودی سرکار کسی بھی ایسے افسر کو ایجنسی میں نہیں رکھنا چاہتی ‘ جس سے اندیشہ ہو کہ حکومت کی کارگزاری کو لے کر وہ افسر ایکشن لے گا یا تفتیش شروع کر دے گا۔ الزام لگ رہا ہے کہ جب سی بی آئی کے سابق ڈائریکٹر آلوک ورم نے اپنے عہدے پر رہتے ہوئے مودی کے پسندیدہ افسر راکیش کے خلاف بد عنوانی کی تفتیش شروع کرائی تھی۔ بس پھر کیا تھا کہ حکومت نے سی بی آئی میں دو افسروں کی لڑائی کا نام دے کر دونوں کو چھٹیوں پر بھیج دیا۔ نشانہ ڈائریکٹر آلوک ورما تھے اور بہانہ بنایا گیا کہ ایجنسی کے وقار کو بنائے رکھنے کے لئے ایسا کیا گیا؟حکومت پر الزام یہ بھی لگے کہ سی وی سی کے کندھوں پر بندوق رکھ کر اس پورے ڈرامے کو رچایا گیا۔
معاملہ جب سپریم کورٹ گیا تو تفتیش کے لئے سپریم کورٹ کے سابق جسٹس پٹنایک کی قیادت میں ایک کمیٹی بنا دی گئی‘ جس نے ڈائریکٹروں کو ہٹانے جانے کے طریقہ کار پر سوالات اٹھائے تو سپریم کورٹ نے آلوک ورما کوعہدے پر بحال کرنے اور فیصلہ سلیکٹ کمیٹی کے ذمے چھوڑ دیا۔ وزیراعظم مودی‘ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رنجن گگوئی کے نمائندے جسٹس سیکری اور لوک سبھا میں کانگرس کے لیڈر ملک ارجن اس کمیٹی کے ممبر ہیں۔ کمیٹی نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے محض دو دن کے اندر‘ دو ایک کے تناسب سے فیصلہ دیا کہ ورما پر سنگین نوعیت کے الزامات لگائے گئے ہیں‘ اس لئے اسے ایجنسی میں نہیں رکھا جا سکتا۔حیران کن بات یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے سادہ کاغذ پر میڈیا ہائوسز کو ایک ٹوئٹ یا واٹس ایپ کے ذریعے پیغام بھیجا گیا جس میں کہا گیا کہ سی وی سی نے اپنی تفتیش میں کہا ہے کہ ورما پر کرپشن کا کیس بنتا ہے۔ اس نے معین قریشی کے معاملے میں طرف داری سے کام لیتے ہوئے ایف آئی آر سے اس کا نام نکلوانے کی کوشش کی‘ اس لئے ورما‘ سی بی آئی جیسی ایجنسی کے چیف کے عہدے پر نہیں ر ہ سکتے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سی وی سی نے صرف ڈسپلنری ایکشن لینے کی بات کی تھی اور اپنی رپورٹ میں سی وی سی نے صاف طور پرلکھا تھا کہ ورما پر رشوت لینے کا کوئی معاملہ ثابت نہیں ہوا اور نہ ہی کوئی ثبوت ملے ہیںلیکن جس طرح سے ایجنسی میں افسران کے درمیان کھینچا تانی چل رہی ہے‘ اس سے ایجنسی کی ساکھ کو دھچکا لگا ہے‘ اس لئے ڈسپلنری ایکشن ضرورلینا چاہئے۔ یہ بات تب اور ثابت ہو جاتی ہے جب آلوک ورما پر سی وی سی کی رپورٹ کی تفتیش کے لئے بنی جسٹس پٹیانک کمیٹی کے چیف سپریم کورٹ کے سابق جسٹس نے ورما کو ہٹائے جانے کے بعد کہا کہ ورما پر ایسا کوئی الزام نہیں جس کی بنیاد پر اسے عہدے سے ہٹایا
جاتا۔انہوں نے صاف طور پر سلیکٹ کمیٹی کے فیصلے پر سوال اٹھائے کہ سی وی سی کی رپورٹ میں رشوت لینے کے ثبوت نہ ہیں۔ وہیں راکیش کے خلاف عدالت کو لگتا ہے کہ اس نے رشوت لی ہے‘ اس لئے درخواست کو خارج کر دیا گیا۔ ورما نے کہا کہ مجھ پر جو الزامات لگے ہیں‘ ان کی وجہ سے مجھے نہیں ہٹایا گیا بلکہ ایک شخص مجھے پسند نہیں کرتا‘ اس لئے ہٹایا گیا کیونکہ میں ایجنسی میں صاف ستھرے طریقے سے کرپشن کے خاتمے کا نظام بنانا چاہتا تھا۔ ورما کو جلد بازی میں ہٹانے کے فیصلے پر یہ بھی الزام لگ رہے ہیں کہ کے خلاف جو افسر جانچ کر رہے ہیں‘ اگر انہوں نے ایمانداری سے جانچ کی ہوتی تو آستھانا حکومت
میں بیٹھے بڑے لوگوں کے کارناموں کو واضح نہ کر دیں۔ورما کو ہٹا ایک طرح سے آستھانا کے خلاف جانچ کو بھی کمزور کرنے کی کوشش ہے۔ گزشتہ چار سال کے دوران جس طرح ان آئینی اداروں پر حملے ہوئے اور جمہوری قدروں کو پامال کیا گیا‘ لوگوں کی مخالفت کی آواز کو غدار بتایا گیا۔ موب لانچنگ (بھیڑ)کے ذریعے نہ جانے کتنے مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا؟ بلکہ پولیس انسپکٹر کو بھی موب لانچنگ کے ذریعے نشانہ بنایا گیا۔ وزیراعظم مودی کس منہ سے یہ کہتے پھر رہے ہیں کہ اسے تفتیش سے ڈر نہیں لگتا ؟تو پھر ان پر یہ الزام کیوں ہے کہ سی بی آئی کے سابق ڈائریکٹر آلوک ورما کے پاس رافیل کی فائل تھی او وہ اس پر پی آئی درج کرنے والے تھے۔ اگر جلدی بازی میں مودی ان کو نہ ہٹاتے تو مشکلات کھڑی ہو جاتیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مودی اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کی تفتیش کی خود ہی پیش کش کرتے اور جے سی پی بنا دیتے تویہ کہتے ہوئے ضرور اچھے لگتے کہ وہ حقیقت سے نہیں ڈرتے اور نہ ہی تفتیش سے۔ دیکھا یہ بھی گیا ہے کہ ای ڈی‘ این آئی اے‘ آئی ٹی جیسی سبھی ایجنسیوں میں اندر سے کام کاج میں دخل اندازی کئے جانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ عوام کو اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کس طرح بھارت کی سماجی ‘ جمہوری قدروں اور آئینی اداروں کی آزادی اور آئین کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے؟ ظاہر ہے سنگھ پریوار جب سے اس کا قیام عمل میں آیا ہے اس کا ایک نعرہ اور مقصد ہے کہ آئین کو بدل کر منوادی مسودے کی شکل دے دی جائے تاکہ بھارت سیکولر ملک نہ رہے اورایک ہندو راشٹر بن جائے۔ گزشتہ ساڑھے چارسال کے دوران بھارت میں جو واقعات سامنے آئے ہیں ‘ اس سے یہی لگتا ہے کہ عوام کو بہت ہی سمجھ بوجھ کر فیصلہ کرنا ہو گا اور غیر اعلان شدہ ایمرجنسی سے ملک کا چھٹکارا دلانا ہوگا۔