"NNC" (space) message & send to 7575

مصر ‘150سالہ منصوبہ…(1)

2019 ء میں سوئزکینال کی تکمیل کے بعد مصر 150 سالہ منصوبہ مکمل کر لے گا۔یہ واٹر وے؛ بحیرہ روم اور بحیرہ احمر سے منسلک ہونے کی وجہ سے انتہائی سٹریٹیجک مقام پر عالمی شپنگ شارٹ کٹ کی نشاندہی کرتا ہے‘ لہٰذاان اہم چوکیوں کو کنٹرول کرنے میں عالمی سطح پر قاہرہ کی اہمیت مزید بڑھ جائے گی۔ اقوام عالم میں مصر کی اہمیت قابل ذکر ہوسکتی ہے ‘جبکہ شرق اوسط کے چند تنازعات اس خطے پر گہرے اثرات مرتب کیے ہوئے ہیں۔عرب فوج کی واپسی کے کئی سال بعد‘کئی اہم فیصلوں نے مصر کی داخلی سیاست کومستحکم کر دیاہے۔تجدید ی نکتہ نظر کے تحت‘ مصر کی پارلیمنٹ نے صدارتی مدت کے حدودکے تعین پر غور شروع کردیاہے‘ جس سے حکومت کااعتماد مزید بڑھے گا۔ واضح رہے کہ مصر اندرونی چیلنجز سے بھی محفوظ ملک ہے۔ معیشت کے تین سالہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) پروگرام کے مکمل ہونے کے بعد ‘مصرمستحکم اقتصادی اشاروں کے ساتھ اپنی معیشت کودرست سمت کی جانب لے کر جارہاہے۔ گزشتہ دہائی مصر کے اندرونی معاملات پرتوجہ مرکوز رکھنے کاصحیح وقت رہاہے اور یہی وجہ ہے کہ اب شرق اوسط میں اپنا تاریخی کردار ادا کرنے کی حیثیت رکھتا ہے۔
یاد رہے کہ مصر نے خطے میں اپنی حیثیت منوانے کے لئے درمیانی طاقت کے طور پر کام کررہا ہے۔ اس حوالے سے مختلف محاذوں میں حصہ لینے یا مداخلت کرنے اورمختلف ممالک کا ساتھ دینے پر‘اتحادیوں نے کافی حد تک اسے سفارتی مددبھی فراہم کی ہے۔مصر‘عرب ریاستوں اور مسلم دنیا میں ایک اہم حیثیت رکھتا ہے۔ تین آبی راستوں‘ بحیرہ احمر‘ بحیرہ روم اور دریائے نیل کے کنا رے پر واقع ہے۔مصر سب سے بڑی عرب فوج رکھنے والے ممالک میں شمار ہوتا ہے۔بہت بڑی بحریہ اور جدید ترین خاص تربیت یافتہ دستے ‘اس کی فوج کا طرہ امتیاز ہیں۔ سعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستوں کی طرز پرمصر کو بھی عوامی سفارتکاری میں‘ سب سے زیادہ قابل ِذکر عرب ریاستوں میں ایک ریاست کی حیثیت حاصل ہے۔ مصرجدید خلیجی ریاستوں کے وجود سے قبل ہی علاقائی رہنما کے طور پر جانا جاتا تھا۔ ان میںکچھ ریاستیں تیل کی دریافت کے بعد اوپر آئیں۔ عرب دنیا میں 100 ملین سے زائد اور تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی میں سب سے بڑی آبادی بھی مصر کی ہے ۔یہ خطہ عرب اور مسلم دنیا میں اپنی شناخت آپ ہے۔مثال کے طور پر قاہرہ کی یونیورسٹی جامعہ الازہر‘مسجد اورایک بڑا مذہبی ادارہ ہے‘ جسے اسلامی تعلیمات کے عالمی مرکز کے طور پر وسیع پیمانے پر تسلیم کیا جاتا ہے۔
خطے میں ایک درمیانی طاقت کے طور پر مصر کی اہمیت‘سب عوامل بڑے پیمانے پر دنیا سے منسلک ہیں۔ جدید مصر نے اپنے علاقائی اثرات کا فخر حاصل کرنے کے لئے عالمی قوتوں سے فائدہ اٹھایا ہے۔1952 ء میں ایک سلطنت کے طور پر مصر کئی محاذوں پر لڑتا رہا اور اتحادیوں کو سپورٹ کرتا رہا‘ تاہم اس وقت خود کو منفرد طور پر نمایاں کرپایا۔ شرق اوسط اور مغرب کے درمیان سرد جنگ اورکشیدگی کو فروغ دینے کا خوب فائدہ اٹھایاگیا۔مصر نے سب سے پہلے سوویت یونین کے خلاف برطانیہ کو سپورٹ کیا‘ پھر سوویت یونین کے خلاف امریکہ کا اتحادی بنا۔ مصری فوج صارفین کی مارکیٹ تک رسائی نہ ہونے اور معیشت کو خطرہ کھڑا ہونے کے بعد‘ اسے تمام اطراف سے سفارتی تعاون ملا۔ اس کے علاوہ مصر نے کافی حد تک فوجی اور اقتصادی امداد بھی وصول کی۔آج مصر اس توازنی عمل کو جاری رکھے ہوئے ہے‘ جو امریکی فوجی امداد میں ہر سال 1ارب ڈالر سے زائد ملتی ہے‘ جبکہ روس کے ساتھ فوجی سازوسامان کی خریداری اور ماسکو کے ساتھ ایٹمی توانائی کی ترقی کی تلاش بھی جاری ہے۔
چین بھی اب سرمایہ کاری کے ماحول کو سازگار بنانے کے لیے مصر میں بڑی انویسٹمنٹ کر رہا ہے۔ ون بیلٹ -ون روڈ ‘ایسوسی ایٹ کے حصے کے طور پر بحیرہ احمر اور سوئز کینال تک آسان رسائی حاصل کرنے کے لئے منصوبہ بندی جاری ہے۔ مصر زیادہ اعتماد مند علاقائی کھلاڑی کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ مصر کو ساتھ ملانے کے لیے عالمی طاقتوں کو مقابلہ کرنا پڑے گا۔ مصر کی جغرافیائی موجودگی ہمہ طاقتی تنازعات کے لئے مشکلات پیدا کئے ہوئے ہے۔ یہ سب کی کمزوری بھی ہے ۔ سابق صدر جمال عبد الناصر نے کہا تھا کہ ''کوئی ملک اپنی حدود سے باہر نہیں نکل سکتا‘ جب تک وہ اپنے اندرونی معاملات کو ٹھیک نہیں کر لیتا‘‘۔ وہ عالمی دنیا کو یہ بات سمجھا رہے تھے کہ مصر کو مضبوط طاقتوں کے درمیان کیا اہمیت حاصل ہے؟ناصر نے جغرافیائی حقیقتوں سے لڑنے کے لئے مصر میں عدم استحکام کو تسلیم کیا تھا‘جس سے وہ پڑوسیوں‘ حریفوں‘ ایتھوپینز یا ترکی سے لڑتے لڑتے نیل کے ساحل تک پہنچ جاتے تھے۔یہ مشرقی بحیرہ روم پر قابض ایک طاقت ہے۔ناصر مغربی قبضہ اور اسرائیل کے خلاف عرب دنیا کی طرف سے مارشلنگ کے لئے جانا جاتا تھا؛ اگرچہ ان کے جانشین نے 1979ء میں اسرائیل سے متعلق پالیسیاں تبدیل کیں۔مصر میں شدید اندرونی سیاسی اور اقتصادی بحران آئے جنہوں نے وقتی طور پر علاقائی ریاستوں کے درمیان ‘ثالثی کے طور پر کام کرنے کی صلاحیت کو محدود کیا‘لیکن انہوں نے مصر کی بنیادی علاقائی امتیازات کو تبدیل نہیں ہونے دیا۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں