دنیا کی سب سے بڑی نا م نہاد جمہوریت کے انتخابات ابھی تک پایہ تکمیل کو نہیں پہنچے۔ یہ دنیا کی بڑی جمہوریت ہونے کی دعویدار ہے‘ جس کا انتخابی عمل مضحکہ خیز ہے۔دنیا میں اور بھی بڑی جمہوریتیں موجود ہیں‘ لیکن بھارت کا طریقہ انتخاب ایک عجوبہ ہے۔ بھارت کی چند ریاستوں میں انتخابات ہوتے ہیں اور چند کے نہیں۔ گزشتہ انتخابات یاد نہیں پڑتا‘ کب ہوئے تھے؟ بہر حال اب پھر سے بھارتی رائے دہندگان اگلے مرحلے کے لئے تیار ہو رہے ہیں ۔ سال ِرواں کے اپریل ‘مئی میں ہونے والے بھارتی عام انتخابات سے پہلے سیاسی پارٹیاں اپنی حکمت عملی کو آخری شکل دینے میں مصروف ہیں۔حزب اختلاف کی جماعتیں بظاہر ریاستی سطح پر الگ الگ پارٹیوں کا محاذ بنانے کی حکمت عملی پر کام کر رہی ہیں۔یو پی‘ بہار‘ مہاراشٹر اوراندھرا پردیش کی ریاستوں میں ایک طرح سے این ڈی اے کے خلاف محاذ بن چکا ہے۔ دیگر ریاستو ں میں بھی اسی طرح کے محاذ بنیں گے۔ یہی نہیں‘ جو پارٹیاں عظیم محاذ میں شامل نہیں ہوئیں ‘ وہ الیکشن کے نتائج دیکھ کر ہو جائیں گی۔ حزب اختلاف کے خلاف این ڈی اے کی سربراہ‘ مرکز میں بر سر اقتدار جماعت بی جے پی اس کوشش میں لگی ہوئی ہے کہ اس کے اوپر اپنے انتخابی منشور کو درکنار کرنے اور2014ء میں جو وعدے عوام سے کئے تھے‘ ان کو پورا نہ کرنے کے جو الزام لگ رہے ہیں‘ جس کی وجہ سے عوام ناراض ہیں‘ اسے اس حکومت کے باقی وقت میں کچھ کم کیا جا سکے۔ مودی حکومت اس بات سے پریشان ہے کہ عوام کو لبھانے کے لئے جو اعلانات کئے جا رہے ہیں‘ ان پر عمل درآمد کرنے کے لئے کافی خرچ کرنا پڑ سکتا ہے؛ حالانکہ مودی حکومت کوامید ہے کہ آر بی آئی تین چار لاکھ کروڑ روپے جلدٹرانسفر کر دے گی‘ جس سے حکومت اپنے اعلانات کوکافی حد تک پورا کیا جا سکتا ہے‘ لیکن ساتھ ہی حکومت کو بڑی تشویش یہ ہے کہ عوام کی خریداری کی قوت کم ہوتی جا رہی ہے۔ زراعت کا شعبہ درجہ بدرجہ زبوں حالی کا شکار ہے ‘جس کی وجہ سے ترقی کی رفتار کمزور پڑ گئی ہے؛ حالانکہ وزیر مالیات یہ دعوے کر رہے ہیں کہ گزشتہ پچیس برس کی نسبت مودی کے دورِ حکومت میں ملک کی جی ڈی پی سب سے تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہے۔حکومت اپنے دعووں کے مطابق ترقی کی رفتار آٹھ سے دس فیصد پر لے جا چکی ہے؛حالانکہ گزشتہ پانچ سال میں مودی حکومت کے جاری کردہ اعدادو شمار پر سوال اٹھتے رہے ہیں‘ لیکن مودی باز نہیں آتے۔2014ء سے2018ء کے دوران بے روزگاری کی شرح گزشتہ45برس میں سب سے زیادہ رہی۔ یوں کہئے کہ ان کے لئے یہ دونوں مرحلے ایک چیلنج کی طرح ہیں؛ اگر'' سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکانومی‘‘ کی سٹیڈی پر یقین کر لیا جائے‘ تو بھارت میں گزشتہ سال1.1کروڑ نوکریاں ختم ہو گئیں‘ جس میں83فیصد دیہی علاقوں میں تھیں۔ اس کی اہم وجہ چھوٹے کاروباروں کے لئے آپریشنل کاسٹ(لاگت) کا بڑھنا بتایا جاتا ہے۔ یہ لاگت2017ء میں نافذ کئے گئے جی ایس ٹی کے شروع ہونے سے بڑھی اور اس سے پہلے500اور1000روپے کے نوٹوں کو بند کئے جانے (نوٹ بندی) کا بھی معیشت پر منفی اثر پڑا۔
بی جے پی کے اندر سے ہی آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ مالیاتی خسارہ پرنظر رکھنے کی کیا ضرورت ہے؟ گوپال کرشن اگروال جو پارٹی کے ترجمان بھی ہیں‘ کی طرف سے کہا جا رہا کہ پارٹی کے تھنک ٹینک بھی اسی طرح کی باتیں کر رہے ہیں۔ پارٹی میں یا محکمہ مالیات سے وابستہ کچھ لوگ ہی مالی احتیاط برتنے کی بات کر رہے ہیں‘ لیکن این ڈی اے کی دوسری پارٹیاں بھی بڑھتے ہوئے مالیاتی خسارے کو لے کر سنبھل کر چلنے پر ہی یقین رکھتی ہیں۔ ادھر وزیر مالیات ابھی اس ایشو پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے ‘کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ پہلے ہی حکومت کے نوٹ بندی‘ جی ایس ٹی جیسے اقدامات کا خمیازہ بھارت بھگت چکا ہے؛ اگر اسی طرح کے اقدامات حکومت2019ء کے الیکشن کے حوالے سے کرتی ہے اور ووٹ کی سیاست کے مدنظر دل کو لبھانے والے اقدامات کرتی ہے‘ تو بھارت کے غریب عوام کو اس کا نقصان اٹھانا پڑے گا۔ وہیں ترقی کی رفتار پر بھی اس کا برا اثر پڑے گا؛ حالانکہ وزیر مالیات ارون جیٹلی نے حکومتی اقدامات کی بڑی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب مودی وزیراعظم بنے تو کچھ صحافیوں نے مودی پر خوب تنقید کی تھی ‘لیکن ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہے ۔ خوب ترقی کرتا رہا اور کر رہا ہے۔ جب مودی سرکار بنی ‘تو بھارت ترقی کرنے والے ملکوں میں دسویں نمبر پر تھا ‘جو ہمارے دور حکومت میں چھٹے نمبر پر آگیا ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی الیکشن جیتنے کے لئے اعلیٰ ذات کے غریبوں کو دس فیصد ریزرویشن کے بعد کچھ اور ریویڑیاں بانٹنے کا سوچ رہی ہے۔ چاہے ‘ اس سے ترقی کی رفتار کا ہی '' بنٹا دھار‘‘ کیوں نہ ہو جائے ؟ حکومت کسانوں کی بد حالی کا نشانہ بنا کر ان کے بینک اکائونٹس میں سیدھے فنڈ ٹرانسفر کرنے کی پالیسی پر کام کر رہی ہے۔ یہ پیسہ؛ حالانکہ کسانوں کا اپنا ہی ہے‘جو ان کا بقایا ہے یا سبسڈی میں انہیں ملنا چاہئے‘ لیکن حکومت اسے ایسے پیش کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے‘ جیسے حکومت کسانوں کی ہمدرد ہے اور بجٹ میں اسے اسی طرح پیش کیا گیا ہے‘جبکہ گزشتہ پانچ سال تک مودی کو اس کا خیال نہیں آیا۔ جب اسمبلی الیکشن ہارنے کی ابتدا ہوئی تو حکومت کے ہاتھ پیر پھول گئے توکسانوں کی یاد ستانے لگی۔ ایسا کرنے کے لئے وہ اڑیسہ میں جاری اسی طرح کے پروگرام کا تجزیہ کر رہی ہے‘ جس کے تحت پانچ ایکٹر زمین والے کسانوں کو بیج‘ جراثیم کش ادویات‘ کھاد‘ مزدور خرچہ وغیرہ کے لئے حکومت کی طرف سے بطور ِنقد رقم مدد دی جاتی ہے۔ ایسے کسان جوکھیت لے کر کھیتی کرتے ہیں‘انہیں بھی اس کا فائدہ ملتا ہے‘ جس میں ان کا انشورنس بھی شامل ہوتا ہے۔ساتھ ہی مودی حکومت یہ بھی سمجھ رہی ہے کہ بی جے پی کا کور ووٹ بینک رہا ۔مڈل کلاس کہیں گزشتہ چار سال میں ملے زخموں کا حساب نہ چکانے کی سوچ لے‘اس لئے انہیں انکم ٹیکس میں مزید رعایت بھی دئیے جانے پر غور و خوض ہو رہا ہے۔
الغرض بر سر اقتدار جماعت ہو یا حزب اختلاف ہر طرف افراتفری کا منظرہے۔ ہر حال میںالیکشن جیتنا ہے ۔ حکمران جماعت سمیت کسی بھی سیاسی جماعت کو بھارت کے مسائل سے کوئی لینادینا نہیں۔ ایسے میں سوال ابھرتا ہے کہ کیا الزام تراشیاں ہی الیکشن کا واحد ایشو بن کر رہ جائے گا؟