کشمیر کے علاقے میں کشیدگی کوئی نئی بات نہیں۔ حال ہی میں 40 سے زائد بھارتی فوجیوںکوخودکش بمبار نے ہلاک کیا۔منگل کو متنازع سرحدی حد تک بھارت نے پہلے جذباتی ہڑتال کی۔ جنگی حکمت عملی اپناتے ہوئے جارحیت کا مظاہرہ کیا۔صورتحال میں مزیدکشیدگی در آئی ۔ بھارتی جنگی طیاروں نے پاکستانی سرحدی حدود کی خلاف ورزی کی ۔ پاکستانی طیاروں کے ایکشن میں آنے کے بعد‘ جنگل میں اپنا فیول ٹینک گرا کربھاگ نکلے۔پاکستانی حدود میں بھارتی جنگی طیاروں کا دورانیہ صرف تین سے چار منٹ تک رہا۔بھارت نے کہا کہ اس نے دہشت گرد ٹریننگ کیمپ کو نشانہ بنایا ہے اور پاکستان پر الزام لگایا کہ 2003ء سے جنگ بندی کی خلاف ورزی کررہا ہے۔دو روز قبل بھارتی طیاروں نے دوبارہ پاکستانی حدود کی خلاف ورزی کی‘ مگر اس بار انہیں واپسی کا راستہ نہ مل سکا۔انہیںپاکستانی شاہینوں نے دھول چٹا دی۔ایک بھارتی طیارہ پاکستانی حدود میں آ گرا‘ جب کہ دوسرا مقبوضہ کشمیر کی سرحدی حدود میں تباہ ہوا۔پاکستان نے بھارتی ائیر فورس کے پائلٹ کوحراست میں لے کر جنگی قیدی بنا یا۔
کشمیر کا تنازعہ‘برطانوی سامراج کی بربادی کے بعد غلط جغرافیائی تقسیم سے پیدا ہوا۔ 1947 ء میں آزادی کے موقع پر‘ کشمیر کے ہندو مہاراجہ نے پاکستانی قبائلیوں کی طرف سے حملے کاالزام لگاتے ہوئے ‘ بھارت سے مدد طلب کی تھی۔ جو اصل میں کشمیر کوہندوستانی یونین میں لے جانے والے انضمام کے معاہدے پر دستخط کا بہانا تھا۔بھارت نے کشمیر میں فوجیوں کو بھیجا ۔ اس طرح بھارت اور پاکستان کے درمیان پہلی جنگ شروع ہوئی۔شیخ عبداللہ کی سربراہی میں قومی کانفرنس کاانعقاد ہوا۔ سیکولر کشمیری سیاسی تحریک کی طرف سے بھارت میں شامل ہونے کے لئے ‘مہاراجہ ہری سنگھ کی جانب سے بُنی گئی سازش کو عملی جامہ پہنایا گیا۔خاص طور پر‘ بھارت نے ہندوستانی یونین کے اندر کشمیر کے لئے ایک خصوصی حیثیت پر اتفاق کیا تھا ۔ بھارتی آئین میںآرٹیکل 370 کااضافہ کیا گیا ۔آئین میں ایک اور مضمون بھی شامل کیاگیا ‘جو کشمیری عوام کو ریاست سے باہر زمین و جائیداد خریدنے سے منع کرتا ہے۔بھارتی آئین کشمیر کو اس کی نسلی اور مذہبی مخلوط آبادی (65فیصد مسلم‘ 30فیصدہندو اور 5 فیصد بدھ مت) کے توازن کو محفوظ رکھنے کی اجازت نہیں دیتا ۔
پاکستان نے ہمیشہ اپنے موقف کوبرقرار رکھا ۔ تقسیم کے صحیح اصولوں کے مطابق‘ کشمیر کو اس کے ساتھ ضم کیا جائے‘اس مقصد کے لیے دونوں ممالک میں 1947-48 ء میں کشمیر کی وجہ سے جنگ ہوئی ‘ جوتقسیم کے اصولوں سے انحراف تھا۔ 1965ء میںدوبارہ جنگ میں‘کامیابی پاکستان کا مقدر بنی ۔1999ء میں کارگل تنازعہ دو ریاستوں کے درمیان آخری براہ راست تصادم تھا۔اس کے بعد سے کشمیر میں زیادہ سے زیادہ فوجی‘ غیرملکی یا حکومتی اہداف کونشانہ بنایا گیا۔ان کوآزادی پسندکشمیری تحریکوںکا سامنا کرنا پڑا‘ جس کی لمبی فہرست ہے ۔ ہندوستانی حکومت نے پاکستانی فوج اوران کی انٹر سروسز انٹیلی جنس کو دہشت گردوں کی تربیت اور معاونت کے لئے ذمہ دارٹھہرایا‘ جبکہ پاکستان نے اسے بے بنیاد قرار دیا۔حقیقت بھی یہی ہے ‘پاکستان نے ہمیشہ سفارتی جنگ کو ترجیح دی اور اپنے موقف پر ڈٹا رہا۔
پلوامہ میںتازہ ترین خودکش حملے کے بعد‘ بحث جاری ہے کہ آیا پاکستان کووسیع پیمانے پر آلات اورمنصوبوں کی آگاہی تھی یا نہیں؟بقول بھارت؛ اس گروہ کے اعمال کا ذمہ دار کون ہوگا؟بھارت روایتی موقف اپنا رہاہے کہ ان سارے معاملات میں آئی ایس آئی ملوث ہے۔خودکش حملہ جس نے بھارتی اہلکاروں کو ہلاک کیا‘ اضافی اہمیت کا باعث بنا‘ کیونکہ یہ بھارت میں عام انتخابات کے تناظر میں ہوا‘ جس میں نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی طاقت پر اپنی گرفت برقرار رکھنے کی کوشش میں ہے۔مودی اور ان کی بی جے پی ‘جو مئی 2014ء میں مستحکم اکثریت کے ساتھ اقتدار میں آئے ‘دونوں قابل اعتماد‘ صاف حکومت اور اقتصادی ترقی کا وعدہ کرتے رہے‘جبکہ حقیقت اس کے برعکس رہی ۔حالیہ مہینوں میں حکومتی گراف مزید گرنے لگا۔ہندوستانی معیشت 2016ء کے طویل مدتی اثرات کے سبب ہچکولے کھاتی رہی اور نئی ملازمت پیدا کرنے میں ناکام رہی ۔ بی جے پی 2018ء میں پانچ ریاستوں کے انتخابات میں بھی شکست سے دوچارہوئی‘ ان میںہندوانتہا پسندواکثریتی ریاستیںراجستھان اور مدھیا پردیش بھی شامل ہیں۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق؛ جیش محمد کے گروپ نے حملے کی ذمہ داری قبول کی‘لیکن اس کی تصدیق نہیں ہوسکتی ہے ،اسی طرح حملے کے دوران ہندوستانی ردعمل سب سے پہلے تھا۔ شدید غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی ۔ جنگی حکمت عملی اپنا کر پاکستان کو سبق سکھانے کی آوازیں اٹھنے لگیں ۔نہ اب وہ دور ہے‘ نہ وہ ریاستیںاور نہ وہ جنگی حکمت عملی ۔اب جنگ دنوں پر محیط ہونے کی بجائے چند لمحوں پر آ رکی ہے ۔دونوں ملک ایٹمی صلاحیت کے حامل ہیں۔پاکستان ایک مناسب ردعمل کے طور پرجنگی حکمت عملی اپنائے ہوئے ہے۔ گزشتہ دو دنوں سے پاکستانی ائیرسپیس کی حدود کسی بھی کمرشل یا نان کمرشل طیاروں کے لیے بند ہے۔
الغرض دونوں کے درمیان الفاظ اور عمل کی شدت انگیز جنگ کے دوران صرف فائدہ بی جے پی کو ہوگا۔جیسا کہ ہندوستان میں جنگ کے خوف میں اضافہ ہوا ہے۔ بی جے پی نے عوام کی حمایت کو برقرار رکھنے کے لئے انتہائی قوم پرستی کے وژن پر تیزی سے انحصار رکھاہے۔بی جے پی کے ہندتوا نظریات بھارت کو ایک ہندو ملک کے طور پر دیکھتے ہیں اور اس پر یقین رکھتے ہیں کہ تمام ہندوستانی مسلمانوں کو 1947ء میں پاکستان منتقل کرنے کے لئے مجبور کیا جانا چاہئے تھا اوربھارت‘ ریاست میں اب ملک میں پانچواں کالم بنانا چاہتا ہے۔اس طرح حالیہ خودکش دھماکے اور حملے اصل میں ان کی حوصلہ افزائی ہے یا نہیں؟ مودی‘ پلوامہ واقعے سے سیاسی طور پر کھیل رہا ہے ۔ہندو کی حیلہ سازیاں آج تک جاری ہیں۔عالمی رائے عامہ کشمیری مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی نہ انصافیوں سے نظریں پھیر رہی ہے۔آخری فیصلہ مظلوم مسلمان کشمیریوں کی اکثریت کا ہوگا۔