"NNC" (space) message & send to 7575

مودی کا امن؟

جنگ سے احساس برتری کی تسکین ہو سکتی ہے ‘لیکن جنگیں مسئلوں کے مستقل حل میں معاون نہیں ہو سکتیں۔مسائل کا پائیدار حل بات چیت سے ہی نکلتا ہے اور اس کی ابتدا نئے ذہن‘ مثبت سوچ اور تعمیر و ترقی کے وژن سے ہوتی ہے۔ اٹل بہاری واجپائی نے پاکستان اور بھارت کے مابین بہتر تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی‘ لیکن کارگل کی جنگ چھڑ گئی۔اس کے بعد کافی تنائو کی صورت حال رہی۔ واجپائی نے یہ کہہ کر واضح لفظوں میں اپنے موقف کا اظہار کیا کہ ''دوست بدلے جا سکتے ہیں‘ مگر ہمسائے نہیں‘‘۔ بعد ازاں اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف بھارت گئے۔ آگرہ سمٹ سے یہ امید پیدا ہوئی کہ دونوں ممالک مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کر لیں گے‘ لیکن بادل نخواستہ بات آگے نہ بڑھ سکی۔بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ بھی پاک بھارت مسائل کے حل کے لئے مذاکرات کا راستہ اپنانے والوں میں سے تھے‘ لیکن انہیں کوئی خاطر خواہ کامیابی نہ مل سکی۔
پاک بھارت باہمی رشتوں کی تلخ تاریخ ایک حقیقت ہے ‘تو دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کے تمام وزرائے اعظم نے بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوششیں کیں‘ لیکن کوئی نہ کوئی بات رشتے کی استواری میں رکاوٹ بنتی رہی اور بات کبھی آگے نہ بڑھ سکی۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ2008ء میں ممبئی حملوں کی وجہ سے جنگ جیسی صورت حال پیدا ہو گئی تھی۔ قیاس یہی کیا جا رہا تھا کہ جنگ کسی بھی وقت چھڑ سکتی ہے۔حالیہ تنائو کی و جہ 14 فروری کو پلوامہ میں ہونے والاواقعہ تھا‘جس میں بھارتی فوج کے 40فوجی مارے گئے ۔ وزیراعظم عمران خان نے پلوامہ حملے کے فوراً بعد بھارت کو ہر قسم کے تعاون کی پیش کش کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ کے پاس پلوامہ حملے کے ثبوت ہیں تو ہمارے ساتھ شیئر کریں‘ لیکن بھارت اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہا اور جان بوجھ کرکشیدگی کو بڑھاتا گیا۔ دوسری طرف عمران خان نے پاکستانی حدود کی خلاف ورزی کرکے آئے گرفتار بھارتی پائلٹ‘ ابھینندن کو جذبہ خیر سگالی کے تحت‘ کسی دبائو کے بغیر رہا کرنے کا اعلان کیا اور اسے بحفاظت بھارت پہنچایا بھی گیا۔ابھینندن کو رہا کرنے کا مقصد صرف اور صرف کشیدگی کو کم کرنا تھا‘ تاکہ خطے میں امن قائم ہو سکے‘ لیکن اس وقت مودی سرکار پر الیکشن کی جیت کا بھوت سوار ہے‘چاہے اس کے لئے پورے خطے کا امن تباہ ہو جائے۔عمران خان بار بار اس موقف کا اعاد ہ کر چکے ہیں کہ بھارتی پائلٹ ‘ابھینند ن کی رہائی صرف امن کی خواہش ہے اور امن کی اس خواہش کوہماری کمزوری نہ سمجھاجائے۔
مودی کو یاد رکھنا چاہئے کہ جنگوں سے مسائل حل نہیں ہوتے‘آخر کار مذاکرات کی میز پرآنا ہی پڑتا ہے۔ اس کے لئے ذرا ماضی میں جھانکتے ہیں۔ دوسری عالمی جنگ میں امریکہ شامل نہیں تھا۔ جاپان بڑی شدت سے جنگ لڑ رہا تھا۔ جاپان کے لئے اہمیت صرف جیت کی تھی‘ اس بات کی نہیں کہ جنگ کا طریقہ ‘جاپانیوں نے کیا اختیار کیا ہے؟ جاپانی فوج میں خاصی تعداد میں خود کش ہوابازتھے‘ جن کا کام اتحادی افواج کو بڑا نقصان پہنچانا تھا۔یہ ہوا باز ''کامیکازی‘‘ کہلاتے تھے۔ کامیکازیوں نے ہی پرل ہاربر پر حملہ کیا اور امریکہ کو اس جنگ میں کودنے کا موقع فراہم کیا۔6اگست کو ہیرو شیما اور9اگست1945ء کو ناگا ساکی پر ایٹم بم گرا کر امریکہ نے یہ بتا دیا کہ جنگ تباہ کن ہی ہوتی ہے۔ چاہے پہل کوئی کرے یا جواب کوئی دے۔ جنگ سے بچنا بزدلی نہیں‘ عقل مندی ہے اور اسی عقل مندی کا مظاہرہ وزیر اعظم عمران خان کر رہے ہیں۔ان کی اس حکمت عملی کا نا صرف پاکستانی میڈیا معترف ہے‘ بلکہ اقوام عالم بھی اس کو سراہا رہا ہے اور یہی بات مودی اور اس کے کارندوں کو ہضم نہیں ہو پارہی ۔باہمی مفاد کے حصول کے لئے رشتہ استوار کرنا پڑتا ہے اور باہمی تعلقات بہتر بنانے کے لئے ماضی کی تلخیوں کو بھولنا پڑتا ہے۔ امریکہ اور جاپان نے روشن مستقبل کے لئے ہی واشنگٹن میں 19جنوری1960ء کو باہمی تعاون کے معاہدے پر دستخط کئے تھے اور خوش گوار تعلقات کے ایک نئے باب کا آغاز کیا تھا۔ یہ آغاز ہی آج کے جاپان کی ترقی‘ خوش حالی اور استحکام کا آغاز تھا۔ اس خطے میں چین کے خلاف امریکہ کا استحکام بھی کسی حد تک اسی باہمی تعاون کے معاہدے کی وجہ سے ہے‘ لیکن یہ دو ملکوں کی دشمنی اور دوستی کی پہلی اور آخری مثال نہ تھی۔
فرانس اور جرمنی کے مابین دشمنی کی ایک تاریخ رہی ہے‘ مگر آج ان دونوں ممالک کی دوستی کی مثال دی جاتی ہے‘ ان کی دوستی یورپی یونین کی تشکیل میں معاون بنی۔ دراصل دو ملکوں کی دشمنی یا دوستی کی بنیاد‘ مفادات کو مدنظر رکھ کے ہوتی ہے‘ مگر یہ کوئی ملک نہیں جانتا کہ آج کا دشمن ‘ کل دوست بن جائے اور آج کا دوست کل دشمن بن جائے۔بھارت خاص کر مودی کو تاریخ سے سبق سیکھنا چاہئے۔ الیکشن جیتنے کے لئے مودی نے گزشتہ قریباً پانچ سال کے دوران جو '' کارکردگی‘‘ دکھائی‘ وہ بھارتی عوام کے سامنے رکھے تاکہ اسے اپنی ''کرتوتوں‘‘ کا پھل مل سکے۔مودی باہمی مفاد کے لئے نہ سہی‘ پورے خطے کے امن کے لئے ہی قدم بڑھائے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں