تہران کے شمال مغرب کے کنارے پر ''گلیامنگ گلاس اورسٹون ایران مال‘‘ کی تعمیر کرنے والے بلڈرز کا کہنا ہے کہ یہ شرق اوسط کی سب سے بڑی عمارتیں ہوں گی۔ عالمی سطح پر خود کو منوانے کے لیے ایران کو ایسے اقدامات کی ضرورت ہے۔ان مالز کو تعمیر کرنے کے لیے خریداری 40 سال قبل شاہ محمد رضا پہلوانی کے دور میں ہوئی تھی ‘ تب آیت اللہ خمینی کاانقلاب نہیں آیا تھا۔تہران کے ناممکن میگا مال نے ایسے شعبوں کو ظاہر کیا ہے ‘جو مذہبی آرتھوپیڈیا کے طور پر خوشحالی اور انصاف کو فروغ دینے کے وعدوں کے مطابق ‘ اپنے ہی نظام کو چیلنج کرنے کے لئے بنائے جا رہے ہیں۔گزشتہ مہینے 1979 ء کے انقلاب کی 10 روزہ تقریبات کا انعقاد ہوا‘جو ملک بھر میں عوامی ریلیوں پر مشتمل تھی۔ تہران میں جشن ‘ ایسی منظر کشی کر رہاتھا؛جیسے چار عشرے پہلے تھا۔گلیوں میں پاپ بینڈ کی گونج تھی اورجگہ جگہ بچے ہار اور غبارے لیے کھڑے تھے۔
صدر حسن روحانی نے غیر رسمی طور پر ‘ پرُجوش تقریر کی ''اس سال ہم اس وقت جشن منا رہے ہیں‘ جب ہم امریکہ اور صہیونی حکومت کی سازشوں کا سامنا کر رہے ہیں‘‘۔انہوں نے مزید کہا کہ ایران کا سفراس طرح جاری رکھیں گے ‘جو 40 سال سے جاری ہے۔بھیڑ‘ معمول کی طرح‘ بنیادی طور پر قدامت پسندوں اور چادروں میں لپٹی خواتین کی تھی۔اس بار2015 ء کے جوہری معاہدے کے خلاف نعروں کی بجائے ‘زیادہ سے زیادہ منافع کمانے اور ملک کو معاشی طور پر مستحکم کرنے کی باتیں زد عام تھیں۔عوام میں کرپشن‘ بدعنوانیوں اور عدم مساوات کے بارے میں غصہ اتنا نہیں پایا جاتاتھا ‘جتنا اسلامی جمہوریہ پر امریکہ کی طرف سے پابندیوں پر غصہ تھا۔
ایران کے کچھ علاقوںنے صحت اور تعلیم میں ترقی کرتے ہوئے ‘ ملک کے صوبوں اور دیہی علاقوں میں بہتر رسائی حاصل کی ہے۔وہ بھی یورپ کی طرز پر رہنے کی توقع کر سکتے ہیں‘خواتین کی شرح خواندگی میں تین گنا سے زیادہ اضافہ ہوا ہے‘تاہم معیشت میں کوئی بہتری نہیںآئی ۔چار عشرے قبل‘ ایران اور ترکی کی معیشت ڈالر کی رو سے تقریباً برابر تھی۔ایران اب اپنے پڑوسی کی معیشت کا آدھا بھی نہیں رہا‘جبکہ دونوں ممالک کی آبادی بھی برابر ہے۔عراق کی طویل جنگ کے دوران اور تجارتی معاہدوں کے با وجود ایرانی تیل کی پیدوار اس سطح سے نہیں بڑھ پائی‘ جو شاہ کے دور میں تھی ۔ بینک ‘ صنعت‘ دارالحکومت کے کئی اداروں میں بھوک ناچ رہی ہے۔
برسلز میں بین الاقوامی ایرانی پروجیکٹ ڈائریکٹر علی ویز نے کہا کہ انقلابی حکومت‘ جنگ‘ پابندیوں اور بدانتظامی کے کئی سال سے تباہ ہونے والے ایرانی معیشت کو اپنے پاوں پر کھڑا کرنے میں ناکام رہی ہے‘ ہم ایرانی نسلوں کی خوشحالی کو فروغ دینے میں ناکام رہے ہیں۔1979ء کے بعد سے ملک میں عالموں نے اقتدارپر گرفت حاصل کرنے پر ہمیشہ زور دیا ہے‘ زرعی تنخواہ میں کمی ہوئی ‘ افراط زربڑھا اور پچھلے سال امریکی پابندیوں نے تیل کی آمدنی کو بھی نچوڑ لیا‘معیشت کو بہتر بنانے کے لیے حکومت کے اندر کئی بحث مباحثے ہوئے ‘مگر بے سود رہے۔صدر روحانی دیگر ریاستی اداروںکومذہبی بنیادوں پر کھڑا کرنا چاہتے ہیں اور اسی طرز پر تنخواہوں پر ٹیکس لگانا چاہتے ہیں‘ انہوں نے اسلامی انقلابی گارڈکی مثالیں بھی دیں۔7 فروری کو ایرانی پارلیمنٹ کے سپیکر نے خامنائی کو قومی بجٹ میں نئی اصلاحات کو نافذ کرنے کے لئے ہدایات جاری کیں‘ تاہم انہوں نے یہ واضح نہیں کیاکہ وہ کیا کریں ؟
نجی بینک کے سابق چیف ایگزیکٹو اور بورڈ کے رکن‘ سابق حکومت کے وزیر کے خلاف مقدمات زیر سماعت ہیں‘پراسیکیوٹر نے الزام لگایا ہے کہ بینک کی ادائیگی کے 94 فی صد قرضے مشکوک ہیں اور ان کاریکارڈ بھی درست نہیں‘صدر کے صلاح کار‘سابق ماہر اور سابق مشیر سعید لیلز نے کہا کہ ''بینکنگ سسٹم بدعنوانیوں کا مرکز ہے ‘‘۔ کاروباری اداروںسے منسلک بڑی سیاسی شخصیات قرض لیتی ہیں اور ٹیکسز بچاتی ہیں۔ روس‘ یوکرائن اور دیگر ممالک کو بھی انہی مسائل کا سامنا ہے‘لیکن ایرانی انقلاب نے ایک منصفانہ اور کم بدعنوانی والے معاشرے کا وعدہ کیاتھا ‘جو پورا ہوتا نظر نہیں آتا‘در حقیقت‘ ایران کے مالز‘ سات سال کے بعد دوبارہ تعمیر ہورہے ہیں‘یہ ایک یادگار توہیں‘مگر نشانی بھی ہیں کس طرح مذہبی نظام میں جکڑ کر بینکنگ کے نظام کو نقصان پہنچایا گیا ہے‘ جو جدید نظام کے اصولوں کے تحت کامیاب ہوسکتا تھا ‘مگر انقلابی قوانین نے ناکام بنا یا۔
ایرانی مالز ڈویلپمنٹ کمپنی نے اس منصوبے کی لاگت شائع نہیں کی ‘تاہم غیر ملکی نیوز ایجنسی کے مطابق‘ بینک سے2017 ء تک 220 کھرب قرض لیا تھا۔ کمپنی کے ماتحت دیگر ادارے اور تعمیر کے دو دیگر بڑے مالز شامل ہیں‘ تاہم اس رپورٹ کو شائع کرنے کے بعد ویب سائٹ سے ہٹا دیا گیا۔گزشتہ مہینے‘ مرکزی بینک نے منصوبوں کا اعلان کیا کہ تقریباً تمام ترقیاتی منصوبوں میں اس کے حصول کو تقسیم کیا جائے گا۔ایران میں 35 لائسنس یافتہ مالیاتی ادارے ہیں اور مرکزی بینک چاہتا ہے کہ ان کی تعداد مزید کم ہو۔