ہندوستان کو انگریزوں کے تسلط و استبداد سے آزاد ہوئے ایک طویل عرصہ گزر چکا ہے۔ اس دوران ہندوستانی مسلمانوں نے اتار چڑھائو کی کئی داستانیں دیکھی ہیں۔ ان گنت مصائب و آلام سے دوچار ہوئے ہیں۔ تعصب ا ور تنگ نظری نے بار بار پستی کے عمیق غار میں دھکیلا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ان نا مساعد حالات کے باوجود‘ بھارتی مسلمانوں نے ہر موڑ پر حب الوطنی‘ بقائے باہم ‘ قومی و ملی ہمدردی کو زندگی کا نصب العین سمجھا مگر گزشتہ چند برسوں میں نفرت اور عداوت کی جس طرح آندھی چلی ہے‘ اس نے نہ صرف گزشتہ حادثات اور زخموں پر نمک پاشی کا کام کیا بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ ہر دن جدید طریقے سے آتش و آہن کا کھیل کھیلا گیا اور مصائب کی نہ ختم ہونے والی رات شروع کر دی گئی ہے۔ افسو س ناک امر یہ ہے کہ آج مسلمانوں کو سیاسی طور پر مفلوج کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔آئے روز ان کے مذہبی مقامات کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ مسلم اقلیت کی تاریخ اور تہذیب کو محو کیا جا رہا ہے۔ تعلیمی اداروں خصوصاً اقلیتی اداروں پر نظر بد‘ مرتکز ہے۔ پرسنل لا کے خلاف قانون سازی ہو رہی ہے اور مزید حیرت یہ کہ مذہب کے نام پر سیاست کا گندہ کاروبار اپنی انتہا کو پہنچا ہوا ہے۔ بھارت کے منظر نامے پر مودی سرکار اور ان کے سر پھرے کارندے‘ آئے دن اشتعال انگیز بیان دیتے رہتے ہیں۔ وہ مسلمانوں کے خلاف محاذ کھولے بیٹھے ہیں اور کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ہندو بنئے کی سوچ ہے کہ بھارت کی تعمیر و ترقی میں مسلمانوں کا کوئی لینا دینانہیں۔ اسی سوچ کو مودی اور اس کے کارندے پورے بھارت میں پروان چڑھا رہے ہیں۔چار سو نفرت کا ماحول پیدا کیا جا رہا ہے۔ وحشت و بربریت اپنی انتہائوں کو چھو رہی ہے۔
بھارت کی تاریخ میں ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں‘ جن کا تصور نہیں کیا جا سکتا ۔ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ بھارتی وزارت دفاع سے رافیل طیاروں کے کاغذات چوری ہو گئے ہیں۔ رافیل طیاروں کی خریداری کے حوالے سے کرپشن کی خبریں زبان زدعام ہیں۔یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ رافیل طیاروں کے معاملے میں بھارتی حکومت کی نا اہلی ثابت ہو رہی ہے‘ ورنہ کیا وجہ ہے کہ حزب مخالف جماعتوں کے سامنے‘ مودی سرکار صاف گوئی سے کام نہیں لے رہی ہے اور اچانک یہ کہا جاتا ہے کہ رافیل طیاروں کے کاغذات کی فائلیں چوری ہو گئیں۔ یہ بڑی شرم ناک بات ہے۔ اپوزیشن خصوصاً کانگرس نے اس کو انتخابی ایشو بنایا مگر اتنی مضبوطی سے پیش نہیں کیا جس طرح کرنا چاہئے تھا ‘یعنی کانگرس میں وہ گرم جوشی نظر نہیں آرہی جس کی ضرور ت ہے۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے جن دعووں اور وعدوں کے بل بوتے پر2014ء کے عام انتخابات میں اکثریت حاصل کی ‘ ان کو شرمندہ تعبیر نہ کیا گیا۔ صرف اعلانات ہوئے۔ سکیمیں بنیں اور میڈیا میں تشہیر کرا کے‘ ان تمام ترقیاتی منصوبوں کو کاغذوں کی زینت بنا کر رکھ دیا گیا۔ زمینی حقائق بتا رہے ہیں کہ گزشتہ پانچ برسوںمیں مودی سرکار نے کوئی خاص ''کارنامہ‘‘ سر انجام نہ دیا۔سیاسی ماہرین نے جمہوری عمل کی صورت حال او ر ترویج سے متعلقہ موضوعات کا احاطہ کرنے والے جریدے'' ڈیموکریٹائزیشن‘‘ میں اپنی ایک نئی تحقیق کے نتائج پیش کرتے ہوئے لکھا کہ گزشتہ برس دنیاکی آبادی کا زیادہ تر حصہ جمہوری معاشروں میں ہی رہتا تھا تاہم2017ء میں دنیا کے 24ممالک ایسے بھی تھے‘ جن کی مجموعی آبادی2.6ارب بنتی ہے لیکن یہاں جمہوریت کا سفر آگے کے بجائے‘ پیچھے کی طرف جاری تھا۔ ماہرین کے مطابق ان دو درجن ممالک میں جمہوریت کو جس تنزلی کا سامنا ہے‘ اس کا سبب ‘ وہاں جمہوری اقتدار بتدریج خود پسندانہ طرز حکومت میں بدلتا جا رہا ہے اور مقتدر سیاست دانوں کی طرف سے اختیارات اور طاقت کے استعمال کی نگرانی کا عمل کمزور پڑتا جا رہا ہے۔ یہ عمل خاص کر دنیا کے ان خطوں میں دیکھنے میں آرہا ہے‘ جہاں جمہوریت کوئی نیا یا مقابلتاً کم عمر طور حکومت بھی نہیں ہے۔
اس حقیقت کا ایک تکلیف دہ پہلو یہ بھی ہے کہ دنیا بھر میں جمہوری انتخابی عمل کی اہمیت کم ہوتی جا رہی ہے۔ بہت سے ممالک میں عام شہری جمہوری حوالے سے بڑی پیش رفت بھی کر رہے ہیں لیکن مختلف ممالک میں ایسے انسانوں کی تعداد کہیں زیادہ بنتی ہے جو ترقی پسندانہ جمہوریت کے سفر میں آگے کے بجائے پیچھے کی طرف جا رہے ہیں۔ ماہرین کی روایتی توقعات کے برعکس افریقہ ‘ وہ واحدبراعظم ہے جسے عام طور پر تو غیر ترقی یافتہ اور سب سے کم جمہوری سمجھا جاتا ہے لیکن یہاںعالمی سطح پر جمہوری سفر‘ اقدار اور جمہوریت کی ترویج میں گزشتہ برس سب سے زیادہ ترقی دیکھنے میں آئی۔رپورٹ میں دنیا کے بہت سے ممالک سے متعلق لبرل جمہوریتوں‘ انتخابی جمہوریتوں اور دیگر کئی حوالوں سے بہت سے اعدادو شمار شامل کئے گئے ہیں۔ گزشتہ برس دنیا کی مجموعی آبادی کا نصف سے کچھ زائد حصہ بظاہر جمہوری طرز حکومت والے معاشرے میں رہ رہا تھا لیکن وہ انسان جو لبرل جمہوریتوں میں رہ رہے تھے ان کی تعداد عالمی آبادی کا محض14فیصدبنتی ہے ۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایاگیا ہے کہ دنیا کے جن 24 ممالک میں جمہوریت کو زوال کا سامنا ہے‘ ان میں امریکہ‘ روس‘ بھارت‘ ترکی ‘ پولینڈ اور برازیل سرفہرست ہیں۔ ان میں سے آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملک بھارت ہے‘ جو خود کو دنیاکی سب سے بڑی جمہوریت قرار دیتا ہے۔ رپورٹ میں واضح الفاظ میں ان چیزوں پر تنقید کی گئی ہے‘ جن کی وجہ سے جمہوریت کمزور ہوتی ہے اور خود مختاری مستحکم ہوتی ہے۔ جس طرح مودی اور اس کے کارندوں نے بھارت کی جمہوری قدروں کو پامال کیاہے‘ انہیںبحال کرنے میں ایک عرصہ درکار ہو گا۔بھارتی شہریوں کو اپنی اقدار اور روایات کے فروغ کے لئے جستجو کرنا ہو گی لیکن بھارتی وزیراعظم مودی اوراس کے غنڈوں سے نجات بھی ضروری ہے۔