فلسطینی علاقوں میں تقریباً 250 کے قریب غیر قانونی مکانوں میں‘ سوسائٹی کمپنیاں کاروبار کر رہی ہیں۔یہ موثر طریقے سے اسرائیلی حکومت کی جانب سے یہودیوں کے لیے سبسڈی فراہم کر رہی ہیں۔گزشتہ سال دسمبر میںان بستیوں میں کام کرنے والی کاروبار ی کمپنیوںکے ریکارڈ کواقوام متحدہ کے ڈیٹا بیس سے منسلک کرکے حتمی شکل دی گئی۔اسرائیل اور امریکہ اقوام متحدہ کے ڈیٹا بیس کے عمل کو روکنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے ضروری اقدامات کر رہے ہیں۔26 نومبر کو اسرائیل کے اقوام متحدہ کے سفیر'' ڈینی ڈینن ‘‘نے ایسوسی ایٹ پریس کو بتایاتھا کہ ''ہم ہر اس کام کو سرانجام دیں گے جو ہمارے مفاد میں ہو گا‘یہ فہرستیں موجودہ ریکارڈ کی روشنی میں نہیں بنائی گئیں‘‘۔
ڈیٹا بیس کو انسانی حقوق کے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر (OHCHR) کے محاصرے کے تحت قائم کیا جا رہا ہے‘اس کوشش میں حال ہی میں بین الاقوامی اور مقامی حقوق کے گروپوں کی مدد سے کئی مسودے تیار کیے گئے۔ان گروپوں میں ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ بین الاقوامی فیڈریشن برائے انسانی حقوق اور انسانی حقوق کے دیگر ادارے شامل ہیںجو اقوام متحدہ کے رہنما اصولوں کے مطابق ایک ریگولیٹری آٹو میشن کے طور پر‘ ڈیٹا بیس پر کام کر رہے ہیں‘جس کااصل مقصد کاروباری افراد کی مالی مددکرنا اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ وہ اسرائیل کی بستیوں میں سرگرمیوں سے فائدہ اٹھانے میں مدد نہ کریں۔
اقوام متحدہ میں 2018ء کے آغاز سے ڈیٹا بیس کا کام جاری ہے‘ رپورٹ کے مطابق 150 کمپنیاں شامل ہیں‘ جن میں سے 60 غیر ملکی اور باقی اسرائیلی ہیں۔ڈیٹا بیس کی مشروعیت کی حفاظت اور اسے تنقید سے بچانے کے لئے‘ اقوام متحدہ کو اپنے فنکشن کو واضح کرنا ضروری ہے۔ اور یہ ظاہر کرنا ہوگا کہ یہ مجرمانہ آلہ نہیں بنے گابلکہ کاروباری رواداری کو فروغ دے گا اوربین الاقوامی قانون کے تحت اپنی موجودہ ذمہ داریوں کے ساتھ‘ کاروبار اور ریاست کو تعمیر کرنے کے لئے ایک اہم ذریعہ بنے گا۔
2013 میں بنائی گئی ‘اقوام متحدہ کی رپورٹ کو مارچ 2016ء میں انسانی حقوق کونسل کی طرف سے منظور کیا گیا۔ مارچ 2017ء کو قرارداد کی توثیق کی گئی‘ جس کا متن تھا''کوئی بھی کاروبار انسانی حقوق پر منفی اثرات ڈالنے کے لیے نہیں کیا جا سکتاـــــ‘‘۔اسرائیلی رہائشیوں میں غیر ملکی اور اسرائیلی کاروباری اداروں کی شمولیت کی نگرانی کرنے کے لئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 2334پر زور دیا گیا ‘ جس میں اسرائیل کی بحالی کی سرگرمیاں بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی قرار پائیں‘ اسرائیلی آبادکاری کی بنیاد پرقائم اداروں اور ان کے معاملات سے متعلق سرگرمیوں کو خارج کر دیاگیا۔
اقوام متحدہ کی ڈیٹا بیس ایک بنیادی میکنزم ہے۔سلامتی کونسل کے14 اراکین نے دسمبر 2016ء میں قرارداد میں صہیونی حکومت سے تقاضا کیا تھا کہ وہ 1967ء سے مقبوضہ سرزمین پر یہودی بستیوں کی تعمیر کو فوری طور پر روک دے۔سلامتی کونسل نے ملائیشیا‘ وینزویلا‘ نیوزی لینڈ اور سینیگال کی مجوزہ قرارداد کو منظور کیا تھا۔ سلامتی کونسل نے کثرت رائے سے یہ قرار دادبھی منظور کی تھی کہ اسرائیل ‘ فلسطینی علاقوں میں یہودی بستیوں کو غیرقانو نی طور پر تعمیر کر رہا ہے اورمسئلہ فلسطین کے حل کی راہ میں بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ امریکہ نے قرارداد پر ہونے والی رائے شماری میں حصہ نہیں لیاتھا‘ مگر یہ امر حیران کن تھا کہ واشنگٹن نے یہ قرارداد ویٹو بھی نہیں کی تھی۔ امریکہ نے پہلی بار 1979ء میں اسرائیلی توسیع پسندی کے خلاف پیش کی گئی قرارداد کو ویٹو کیا تھا۔ اس قرارداد کے بعد اسرائیل کے
پاس2 ریاستی حل قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں رہا۔ یہ تاثر قوی ہوا کہ فلسطین میں یہودی آباد کاری کے فروغ کے لیے اسرائیل نے جو بھی اقدامات کیے‘ ان سے اب پیچھے ہٹنا ہوگا۔ اقوام متحدہ کی کچھ قراردادوں پر روشنائی خشک ہونے سے پہلے ہی عمل درآمدکرا لیا جاتا ہے‘ لیکن مسئلہ فلسطین پر اپنی منظورکردہ قراردادوں پر عملدرآمد اور تنازعہ حل کروانے میں 70برسوں سے یہ ادارہ ناکام رہا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ سلامتی کونسل نے فلسطین میں یہودی کالونیوں کو غیرقانونی قرار دیا تھا مگر اس قرارداد پرعمل در آمدکب کہاں اور کون کرائے گا؟ کوئی نہیں جانتا۔
ٹرمپ انتظامیہ کا حال یہ ہے کہ 17فروری 2017ء کی میڈیا رپورٹس کے مطابق وائٹ ہاؤس کے اعلامیے میں کہا گیا کہ امریکہ شرقِ اوسط میں دو ریاستی حل پر اصرار نہیں کرے گا۔ ایسے دو ریاستی حل کا کوئی فائدہ نہیں‘ جس سے امن نہ لایا جا سکے۔ ٹرمپ کے امریکی صدر بننے کے بعد یہ اسرائیلی وزیراعظم کا پہلا دورہ تھا۔ پروگرام کے مطابق نیتن یاہو اور ٹرمپ کی ملاقات 15 فروری2017 ء کو وائٹ ہاؤس میں ہوئی‘ جس میں امریکہ‘ اسرائیل تعلقات سے لے کر فلسطین میں یہودی بستیوں کی تعمیر تک ‘کئی معاملات پرتفصیلی گفتگو ہوئی۔ بعد ازاں امریکی صدر اور اسرائیلی وزیراعظم نے مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فخریہ لہجے میں بتایا تھا کہ ''اسرائیل اور امریکہ کے درمیان اچھے تعلقات ہیں‘امریکہ اسرائیل انسانی اقدار کی حمایت کرنے والے ممالک کہلاتے ہیں‘ اقوام متحدہ کے اسرائیل کے خلاف یکطرفہ اقدامات کو رد کرتے ہیں‘اقوام متحدہ مبینہ طور پر اسرائیل کے ساتھ غیر منصفانہ رویہ رکھتا ہے‘ امریکہ اسرائیل‘ فلسطین امن معاہدے کی حمایت کرے گا‘ امن معاہدے پر متعلقہ فریقین کے ساتھ کام کریں گے‘ امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرے گا‘ فلسطین کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے تک امن معاہدہ نہیں ہو سکتا‘‘۔ جب کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے وفورِ مسرت میں ٹرمپ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ' 'یہودیوں اور یہودی ریاست کا ٹرمپ سے بڑھ کر کوئی خیرخواہ نہیں‘یقین دلاتا ہوں امریکہ کا اسرائیل سے بہتر کوئی اتحادی نہیں‘ امریکہ اسرائیل اتحاد مشترکہ مفادات اور اقدار پر مبنی ہیں‘‘ـ۔