"NNC" (space) message & send to 7575

آنیاں کیا؟ جانیاں کیا؟

اہل ِوطن آزادی سے لے کر اب تک‘ بے شمار فریب کاریوں کے جال سے پھنستے چلے آرہے ہیں۔آزادی کا خواب ہم نے خو ن بہا کر دیکھا اور دیکھتے چلے آرہے ہیں۔ 1947ء میں یہی خواب دیکھا تھا کہ ہم اپنے آزاد وطن میں ایک'' نئی دنیا‘‘ دیکھیں گے۔ ہر سال امیدوں کی سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے ہم یہاں تک آن پہنچے ہیں۔ہمارا میڈیا ''سست رفتاری‘‘ مگر حقیقت پسندی کے ساتھ حقائق و واقعات کا بتدریج ادراک کر رہا ہے۔آج حسب ِ معمول‘ پھر میں نے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے اخبارات پر ایک نگاہ ڈالی تو یقین کیجئے کہ میرے خوابوں کی ساری دیواریں‘ ایک کے بعد ایک مسمار ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ یاد نہیں پڑتا کہ وہ کون سا یومِ آزای تھا؟ جسے پوری قوم نے حقیقی خوشیوں سے منایاہو؟ لیکن آفرین ہے‘ ہمارے محترم قائدین پر جو نا امیدیوں کی جھریاں استری کر کے '' امیدوں‘‘ بھرے دنوں کی طرف بڑھتے چلے آرہے ہیں اور ''مایوسی‘‘ کو ہمارے قریب پھٹکنے نہیں دے رہے ۔ ''امیدوں‘‘ کی جھولیاں بھرتے ہوئے کچھ خاص ''ٹکڑے‘‘قارئین کی نذر کر رہا ہوں:۔
چند ماہ پہلے کی بات ہے‘ جب نئی نئی حکومت قائم ہوئی تو ہم نے امیدوںکی آندھیاں چلائی تھیں‘ لیکن لاہور ہائی کورٹ کے جج‘ جسٹس امیر بھٹی نے گزشتہ روز جو ریمارکس دئیے‘ وہ اہل ِاقتدار کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہیں۔جج صاحب نے کہا کہ '' ملک میں مہنگائی کا طوفا ن ہے‘ مگر حکومت ٹس سے مس نہیں ہو رہی‘‘۔جج صاحب نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ '' سربراہان مملکت دوسرے ملکوں سے اربوں روپے مانگتے ہیں۔ خبروں کے مطابق اربوں روپے وصول کر لئے جاتے ہیں‘ لیکن یہ پیسے کہا ں جاتے ہیں؟‘‘۔
غالباً ٹی وی چینل والے اصل خبر سامنے نہیں لاتے‘ ورنہ یہ انکشاف ضرور کرتے کہ اربوں روپے کی جو امداد ہمارے حکمران وصول کرتے ہیں‘ وہ جاتی کہاں ہے؟ میرا یہ سوال کم نگاہی پر مبنی ہے۔اصل بات یہ ہے کہ اوسط اور نچلے درجے کے خاندانوں میں‘ دن رات جو لڑائیاں چل رہی ہیں‘ ان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ میاں بیوی بلند آوازوں میں ایک دوسرے کے ساتھ جو تنازعات کر رہے ہیں‘ کسی نہ کسی حد تک ان کا تعلق اہل ِاقتدار سے ہوتا ہے۔ باقی شہروں کا تو پتا نہیں لیکن کراچی اور دیگر بڑے شہروں میں تمبو‘ قناتیں اور سڑکوں پر دریاں بچھائے‘ جو بھوکے پیٹ ان مراکز کا رخ کرتے ہیں اور پھر رات بھر انتظار میں گزر جاتی ہے‘ دوسری طرف ہمارے حکمرانوں کی طرف سے جو '' شاندار دعوتیں‘‘ بھوکے پیٹ والے معذوروں اور غریبوں کو پیش کی جاتی ہیں‘ ان کا ذکر بھرے پیٹ والے نہیں کرتے ‘بلکہ قریب بیٹھے اور لیٹے ہوئے حاضرین کے مابین‘ اپنی اپنی معذوری کا ذکر کیا جاتا ہے۔بعض زیادہ بھوکے‘ پیٹ پر جھولا باندھ کر بال بچوں کی فکرکرتے تھے ‘مگر ان کے ساتھی سمجھاتے ہیںکہ اپنی شلوار اور دھوتی دیکھو‘ جس میں آلو گوشت کے ساتھ مزید شوربہ بھی ڈالا جا رہا ہے اور ان کے ہمسائے ایسے ایسے تبرے سناتے کہ بدبختوں نے اپنے پیٹ کے اندر تو خوراک بھر لی‘ مگر جن بچوں اور بیویوں کے لئے کھانا لے کر جا رہے ہو‘ وہ کس کام آئے گا؟تم سب کے بیوی بچے بھوکے مریں گے۔اپنا انجام تو خود جانو‘ مگر یہ تو بتائو کہ جو کچھ تم گھروںکولے جا رہے ہو‘ اس کا کرو گے کیا؟جواب دیا جاتا ''کیا کریں؟بچے بھوکے ہیں۔ بیوی سے کچھ کھایا نہیں جا رہا۔ کھائے کہاں سے؟ وہ تو دری پر اپنے پڑوسیوں کا کھانا دستر خوان پر چھوڑ آئی ہے۔ اب پکے ہوئے آلوئوں اور شوربے کے اوپر نیند کیسے آئے گی؟ایک دردِدل رکھنے والا خوش حال شخص گھر میں پکایا ہوا سالن اور روٹیاں سب کا سب‘ بالٹیوںمیں بھر کے اس کیمپ کی طرف لے جا رہا تھا۔ اس کی سوچ تھی کہ مجھے پرانے زمانے کے درویشوں کی قربانیاں یاد کرنا چاہئے ‘جو اپنے بیوی بچوں کی خوراک‘ حاجت مندوں کوپیش کرنے ‘لے جاتے۔
اخبارنویس سرخیاں لگانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔سرخیوں کے الفاظ ''حاجت مندوں‘‘ کی خدمت میں یوں پیش کئے جا رہے تھے‘ جیسے داتا ؒ کے دربار میں دیگیں اڑائی جاتی ہیں۔بعض لوگوں کا مشاہدہ ہے کہ خدا ترس افراد پکی پکائی دیگ‘ مجاوروں کے پاس لے آتے ہیں۔ دیگ وصول کر کے مجاور سوروپے کا نوٹ سخی کی طرف بڑھا دیتا ہے اور وہ سرخ آنکھوں سے مجاور کو دیکھتے ہوئے کندھوں سے کندھا لڑاتے ہوئے گھر کی طرف روانہ ہو جاتا ہے۔واپس گھر آکر بیگم سے پوچھتے ہیں کہ '' بچوں کے لئے کچھ رکھ چھوڑا ہے؟‘‘آگے سے بیگم نے جواب دیاکہ ''تم تو غریبوں اور لاچاروں کو تبرک دینے گئے تھے‘ وہاں سے خالی پیٹ آگئے ہو‘‘۔ وہ صاحب پریشان ہوئے۔ گھر سے ایک بالٹی پکڑی۔ بھاگے بھاگے داتاؒ دربار گئے اور ایک بھری ہوئی دیگ سے لڑتے بھڑتے مجاوروں سے بالٹی میں پلائو ڈالنے کے لئے کہا۔ دھکم پیل کرتے ہوئے بالٹی مجاوروں نے چھین لی۔بات کدھر سے کدھر نکل گئی ‘ اب دوبارہ مہنگائی کا سیاپا کرتے ہیں۔جسٹس امیر بھٹی نے جو کہا‘ وہ اہل ِاقتدارکو خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لئے کافی ہے۔جج صاحب نے کہا کہ '' آئے روز حکومت کسی نہ کسی ملک کے حکمران سے اربوں روپے وصول کرتی ہے‘ لیکن یہ نقدی کہاں جاتی ہے؟ روزبروز ڈالر کی قیمت بڑھتی جا رہی ہے۔عوام مہنگائی میں پس رہے ہیں۔ حکومت کو کوئی سروکار نہیں۔کچھ نہیں ہو سکتا تو کم از کم ڈالر ہی روک لیں۔ عوام کو کچھ ریلیف نہیں مل رہا۔ حکومت میں آنیاں جانیاں لگی ہیں‘‘۔آنیاں کیا؟اور جانیاں کیا؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں