اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بھارت میں مسلمانوں کو بے شمار مسائل کا سامنا ہے۔ مزید تشویش کی بات یہ ہے کہ ان مسائل میں بتدریج اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور دور دور تک ان کے حل کے امکانات نظر نہیں آرہے ۔ایسے میں؛ اگر مسلمان خود بیداری کا ثبوت نہ دیں اور اپنے مسائل کے حل کے لئے سنجیدہ نہ ہوں تو ان کے مستقبل کے لئے اس سے زیادہ خطرناک بات اور کیا ہو سکتی ہے؟خاص طور پر الیکشن کے زمانے میں مسلمانوں کے مسائل پر زیادہ زور دیا جاتاہے‘ مگر عملی طور پر کچھ نہیں کیا جاتا۔بھارت کے موجودہ حالات میں ضروری ہے کہ صف اول کے قائدین مثبت کردار ادا کریں اور ان گنت مسائل کے حل کے لئے جامع لائحہ عمل تیار کریں۔ مسلمانوں کو ان مسائل سے نکالنے کے لئے متحرک کریں اوراتحاد و یگانگت کا مظاہرہ کرتے ہوئے‘ بھارت کی مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو آمادہ کریں کہ وہ مسلمانوں کے مسائل کے حل کے لئے عملی طور پر اقدامات کریں۔حیران کن بات یہ ہے کہ حکومتیں مسلمانوں کے مسائل حل کرنے کا دعویٰ ضرورکرتی چلی آرہی ہے‘ لیکن عملی طور پر خالی نعروں کے کچھ دکھائی نہیں دیتا‘ خاص کر مودی سرکار نے تو حد ہی کر ڈالی؛ اگر مودی کے دور حکومت کا جائزہ لیا جائے ‘تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ مودی اور اس کے حواریوں نے سوائے مسلمان دشمنی کے اور کوئی ''کارنامہ‘‘ سر انجام نہ دیا۔
الیکشن میں اگر بھارت کے پچیس کروڑ مسلمان یکجا ہو جائیں تو وہ یقینا نا صرف مرکز میں حکومت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں‘ بلکہ ریاستوںمیں بھی اپنی اہمیت کو منوا یا جا سکتا ہے۔مسلمانوں سے گزشتہ بھارتی حکومتوں کی بے توجہی نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ حکومتوں کے ذریعے کام کرانے کے لئے سیاسی بیداری ناگزیر ہے۔ بھارتی مسلمانوں کے بنیادی مسائل میں تعلیم سرفہرست ہے۔ اعداد و شمار اور متعدد رپورٹوں سے پتا چلتا ہے کہ بھارتی مسلمانوںکی تعلیمی صورت حال نا گفتہ بہ ہے۔ خواندگی کی شرح فیصد میں اضافہ کے مختلف طریقے ہو سکتے ہیں‘ مثلاً جو بچے سکول نہیں جاتے انہیں بھیجنے کے لئے حکمت عملی تیار کی جائے‘ جن کے پاس تعلیم کے حصول کے لئے وسائل نہیں‘ انہیں وسائل فراہم کر کے فوری طور سے سکول داخل کرایا جائے‘ تاکہ پڑھ لکھ کر بھارتی معاشرے میں فعال کردار ادا کر سکیں اور یہ بات ہندو بنئے کو ہضم نہیں ہورہی ‘خاص کر نریندر مودی سے‘ جن کی مسلم دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔
دوسرابڑا مسئلہ جو بھارتی مسلمانوں کو درپیش ہے‘ وہ روزگار کی فراہمی ہے۔بے روزگاری ایک ایسا گمبھیر مسئلہ ہے ‘جس کی وجہ سے کئی اور مسائل جنم لے رہے ہیں۔اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ خطِ افلاس سے نیچے زندگی گزارنے والے مسلمانوں کو سرکاری مفت راشن فراہم نہیں کیا جاتا۔94فیصد مسلمان خورا ک کی بنیادی سہولت سے محروم ہیں۔ دیہات میں رہنے والے ساٹھ فیصد مسلمانوں کے پاس رہنے کو گھر نہیں۔ صرف ایک فیصد مسلمان کسانوں کے پاس واٹر پمپ ہیں۔ قریباًدو فیصد مسلمانوں کے پاس ٹریکٹر کی سہولت ہے۔ غریب اور بے حال مسلمانوں کے لئے شروع کی جانے والی سرکاری رعایتوں اور سکیموں سے بھی مسلم طبقہ خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ جن مسلمانوں کو سبسڈی کے ساتھ قرض دئیے گئے ‘ ان کا تناسب صرف تین فیصد ہے۔اس سے بھی زیادہ دگر گوں صور تحال بھارت میں دی جانے والی سرکاری ملازمتوں کی ہے‘ مسلمان اس میں بھی کوسوں دور ہیں۔ الیکشن کے زمانے میں نوکریاں دینے کے وعدے کئے جاتے ہیں‘ لیکن جب وقت گزرتا جاتا ہے‘ تو سوائے خاک چھاننے کے کچھ ہاتھ نہیں لگتا۔
بھارتی مسلمانوں کا تیسرا اہم مسئلہ‘ جان و مال کے تحفظ کا ہے۔ مسلمان اس خوف میں مبتلا ہیں کہ کسی بھی لمحے مودی کے غنڈے آدھمکے گے اور بہانہ بنا کے نقصان پہنچا کر چلتے بنیں۔ اس خوف میں بھلا کوئی مسلمان زندگی گزار سکتا ہے؟یہ خطرہ بھی اپنی جگہ موجودہوتا ہے کہ کہیں کوئی فرقہ وارانہ فساد برپا نہ ہو جائے اور وہ اس کا خواہ مخوا ہ نشانہ نہ بن جائیں۔آزادی کے بعد سے اب تک بھارت میں‘ رونما ہونے والے ہزاروں فسادات نے مسلمانوںکو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ ان کا بھارت میں مستقبل کیا ہے؟ کیاالیکشن کے دنوں میں ہی دل لبھانے والے نعرے ان کا مقدر ہیں؟ اور اس کے بعد ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔مودی حکومت کے حالیہ پانچ سال میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ایک نیا اور بھیانک ماحول بنا دیا گیا ہے۔ اس عرصے میں پچاس سے زائد مقامات پر دلتوں اور خاص کر مسلمانوں کو گھیر کے مودی کے غنڈوں نے بلاوجہ تشدد کا نشانہ بناتے رہے ۔کئی دفعہ ان واقعات میں اکثر مسلمانوں کو جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔بھارتی الیکشن میں بنیادی طور پر مسلمانوں کو اپنے یہ تین مسائل مدنظر رکھنے چاہئیں اور کوشش کرنی چاہئے کہ متفقہ طور پر ایسے امیدوار کو ووٹ ڈالا جائے ‘ جو ان مسائل پر مسلمانوں کے ساتھ کھڑا ہو ‘ صرف الیکشن کے دنوںمیں نہیں‘ بلکہ جب تک ان کا حل نہیں ہو جاتا۔بغیر کوئی سیاسی ایجنڈا بنائے مسلمان جب تک روایتی انداز میں بھارتی الیکشن میں حصہ لیتے رہیں گے‘ ان کے مسائل کا خاتمہ مشکل ہی نہیں‘ ناممکن ہے۔