اکثر قارئین کی طرف سے لکھا جارہا ہے کہ میں پاکستان کے قومی و سیاسی موضوعات پر لکھنے سے گریز کرتا ہوں،بیشتر موضوع خارجی ہوتے ہیں‘ خودمجھے بھی اس کا احساس ہے لیکن قارئین سے استدعا ہے کہ جتنے موضوعات پر یہاں لکھا جا رہا ہے،وہ سب کے سب سقہ بند موضوعات ہیں۔ پاکستان میں رائج الوقت موضوعات پر لکھنا اپنے راستے بند کرنے کے مترادف ہے۔میں آپ کو صرف ایک ہی موضوع کی طرف متوجہ کروں گا،ٹی وی پر ہونے والے مباحثوں پر غور کریں تو آج سے محض ایک برس قبل وسیع موضوعات پر گفتگو ہوتی ،سنتے اور دیکھا کرتے تھے۔حال کو یاد کریں تو بہت سے اہل قلم اور اہل فکر کی اکثریت ٹی وی سکرین پر نظر نہیں آتی۔یہی صورتحال اخبارات کی ہے۔بیشتر لکھنے والے وہی ہیں جورائج الوقت موضوعات پر یکساں دلائل دیتے نظر آرہے ہیں۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ سیاسی فکر وعمل میں کسی تجربے کی طرف توجہ لایعنی نظر آتی ہے۔نئے خیالات اور نئی سوچوں پر توجہ دینا تضیع اوقات سمجھا جاتا ہے،اس کے برعکس جو تبدیلی رونما ہو رہی ہے،اس میں آپ کو روایتی موضوع پر لکھے گئے مضامین زیادہ سے زیادہ نظر آئیں گے۔کوئی نیا خیال ہمیں اپنی طرف متوجہ نہیں کرتا،دقیانوسی تبدیلی سب سے زیادہ پبلشر حضرات کو متوجہ کررہی ہے۔بڑی سقہ بند قسم کی صورت حال ہے۔ہر طرف آسانیاں ہی آسانیاں ہیں،نہ مطالعہ کی ضرورت ہے نہ بحث و مباحثہ کی ۔سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ پرانی تحریریں نکال کر مکھی پر مکھی مارتے چلے جاؤ۔اس کی مکھی وہ مارتا ہے اور اس کی مکھی یہ۔نئے خیالات بہت تکلیف دہ ہیں،جو موجودہ سرکاری طرز کے ایڈیٹر ،تحریروں کا انتخاب کرتے ہیں انہیں دماغ پر کچھ زور نہیں دینا پڑتا۔
دوسری طرف جو نئے خیال، جدتیں ،نئی تخلیقات اور انسانی زندگی میں نئے تجربات سامنے آرہے ہیں ،ان کی طرف متوجہ ہونا مشکل بھی ہے اور دور حاضر کے تقاضے پورے کرنا دشواربھی۔ اگر آپ جدید زندگی کی طرف توجہ دیں تو یہ بڑا دشوار کام ہے،چند ہی روز قبل میں نے جدید دور میں ہونے والے تجربات کی طرف نگاہ ڈالی تو حیران رہ گیا کہ دنیا کس تیزی کے ساتھ نئی نئی بلکہ انقلابی تبدیلیاں لانے میں مصروف ہے۔میں نے پرانے سفرسے کنارہ کشی کرتے ہوئے نئے تجربات کی طرف دیکھا تو تعجب ہوا۔طویل مدت سے راہ سفرتبدیل ہو چکا ہے ،فضائی سفر بھی اب پرانی طرز کا ہو گیا،حادثے ضرور ہوتے ہیں لیکن کب نہیں ہوتے؟ یہ سفر پرخطر بھی ہے اور زندگی غیر محفوظ بھی ۔اس سے دیرینہ سفر کچے اور پکے راستوں پر آنا جانا پر خطررہا ہے۔اب انسان پرانی طرز پر چلنے اور محفوظ رہنے کے راستوں کی طرف دیکھ رہاہے۔ان دنوں امریکہ اور چین ،زمینی سفر کی طرف توجہ دے رہے ہیں،امریکہ جس راستے پر رواں دواں ہونے کے لیے عملی تجربات کر رہا ہے وہ حیرت انگیز ہیں۔جدید طرز کی نئی شاہرائیں ، زندگی کو زیادہ خطرات سے محفوظ کر رہی ہیں ۔اس عمل میں امریکہ اور چین دونوں زمینی سفر کے پھیلائو کی طرف بڑھتے جا رہے ہیں۔ایک طرف زمینی سفر ہے ،دوسری طرف آبی۔یورپ ،امریکہ اور ایشیاء کاباہمی سفر محفوظ تیز رفتار اور سب سے بڑھ کر تجارتی سامان کم از کم مدت میں،ہزاروں میل کا سفر طے کرتے ہوئے، محفوظ طریقے سے منزل مقصود تک پہنچ رہا ہے ۔بے شک زمینی سفر قلیل مدت میں دیگر ہر قسم کے نقل وحرکت کے ذرائع کوپچھاڑتے ہوئے، وقت کے ساتھ اپنے پہیوں سے لپیٹتا جا رہاہے ۔محفوظ سفر کے لیے سب سے زیادہ مختلف طور طریقوں سے تجربات کیے جارہے ہیں ۔
فی الحال ایک بات پر توجہ نہیں دی جارہی کہ انسانوں کے باہمی رشتے کیسے تیز رفتاری سے بڑھیں گے، جو ابھی تک ممکن نہیں ہو پایا۔ آج چینیوں کی بھاری اکثریت چین میں رہتی ہے افریقہ کی آبادی زیادہ تر وہیں تک محدود ہے ،ان میں اکا دکاخاندان اپنا وطن بدلتے ہیں لیکن تیز رفتار زمینی رابطے ابھی بہت کم اور سست رفتار ہیں ۔ چین اور امریکہ زمینی سفر کی آسانی کے لیے نئی جہات نکال رہے ہیں ۔ انہیں گہرا کریں گے ، خدا نے انسانی مخلوقات کو جس مقصد کے لیے تیز رفتاری کی سہولتیں مہیا کی ہیں، ابھی تک ان سے و سیع پیمانے پر استفادہ نہیں کیاجا رہا۔ میں فی الحال وسیع البنیاد فوائد کی جانب توجہ نہیں کر رہا۔فضائی سفر آج بھی مشکل اور مہنگا ہے ، ایک براعظم سے دوسرے براعظم تک مع اہل و عیال منتقل ہونا آسان نہیں ۔ برطانیہ، ایشیاء اور امریکہ میں دنیا بھر کے خطوں کے عوام، وسیع پیمانے پر ایک ارضی مخلوق کی صورت تشکیل نہیں پا رہے ،کسی بھی خطے کے لوگ چین میں جا کر اجنبی محسوس ہوں گے ،برطانیہ کے شہری ہمارے علاقوں میں آکر گھل مل نہیں سکتے ،روسیوں کے نین نقش اور ہیںتو برما اور ویت نام کے لوگ کسی دوسرے ملک میں جا کرآسانی سے آباد نہیں ہوسکتے ۔ایسی دنیا کو تشکیل دینے میں نئے سفر کی جو وسعتوں کے دروازے تیزی سے کھولے جارہے ہیں۔ انسانی زندگی کے نئے مراحل شروع ہوں گے ۔انسانی معاشرہ جو نئی تبدیلیاں دیکھے گا ابھی ہم ان کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔انسان کے لیے دیکھنے کو بہت کچھ باقی ہے۔