امریکہ کتنا طاقتور ہے؟ کیا اب بھی عالمی سطح پر ایک نا قابل شکست طاقت ہے؟ اپنے مخالفین‘ اتحادیوں اوردیگر ممالک پر خواہشات کے مطابق؛ اپنی پالیسیوں کو نافذ کرانے میں کامیاب ہوسکتا ہے؟ کیا ان کی پالیسیوں کے ساتھ چلنے کے لئے تمام ممالک کو مجبور کیا جا سکتا ہے کہ وہ ‘ خطرناک‘ یا صرف اپنی دلچسپی کے برعکس امریکہ کا مجبوراً ساتھ دیں؟ کیا امریکی طاقت کی حدودبھی واضح طور پر موجود ہیں؟کیا اسے علم ہے کہ اہداف کو ترتیب دینے اور ان کا تعاقب کرنے میں انتخابی اور اسٹریٹجک عمل کیا ہونا چاہیے؟
ٹرمپ انتظامیہ نے پہلی پوزیشن حاصل کی ‘ خاص طور پر جان بولٹن‘ وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر بن گئے اور مائیک پومپیونے ریاست کے سیکرٹری کے طور پر اپنا کردار ادا کیا‘جو بھی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ابتدائی ادارے ہوسکتے تھے‘ ان کی آمد سے ارادی یا غیر ارادی طور پر کام کرنے پر مجبور ہوئے‘ غیر ملکی پالیسی کی تبدیلی کی طرف اشارہ کیا گیا‘ جس طرح جارج ڈبلیو بش کی پہلی اصطلاح صدر کی حیثیت سے بنائی گئی ‘ جب نائب صدر ڈک چنی اور نیکوزروئنٹیوو نے ترتیب دی۔اس کے ابتدائی دور کی ایک اہم خصوصیت یہ تھی کہ امریکہ نہ قابل شکست طاقت تھا‘ اکیلے بہت سے مسائل پر قابو پانے کی استطاعت رکھتا تھا‘دوسری ریاستوں کو امریکہ کی طاقت کو قبول کرانے اورمسائل کو حل کرانے کے لئے بھاری وزن رکھتا تھا۔بش کے ایک سینئر مشیر (مبینہ طور پر کارل روو) نے غیر ملکی صحافی رون سسکر کو بتایا ''ہم اب سلطنت ہیںاور جب ہم عمل کرتے ہیں ‘توہم اپنی حقیقت کو تشکیل دیتے ہیں‘‘سمجھوتہ اور اتحاد کی عمارت 2003 ء میں تعمیر ہوئی،ہم برائی سے مذاکرات نہیں کرتے تھے‘ ہم اسے شکست دیتے تھے ‘‘۔
بش‘ چنی کے نقطہ نظر سے ناکامی کا سلسلہ شروع ہوا‘ لیکن یہ بھی سچ ہے‘ ٹرمپ انتظامیہ ایک ہی غیر جانبدار سرکشی کی زبا ن بولتے دکھائی دئیے۔ ٹرمپ کے فیصلوں سے ایک بات ثابت ہوتی ہے کہ تجارتی جنگیں ‘نا صرف چین کے ساتھ ‘بلکہ امریکہ کے معاشی شراکت داروں کے ساتھ بھی سوالیہ نشان پیدا کیے ہوئے ہیں۔یہ انتظامیہ کے بنیادی معیار کو جانچنے کے لئے کافی ہیں۔شمالی کوریا اور ایران کے ساتھ سفارتکاری کا عمل ہو یا کچھ اور‘ واشنگٹن نے ناقابل ِیقین مطالبات کی توثیق کی ‘ پھر اس امید پر پابندیوں کی تصدیق کی کہ یہ اہداف امریکہ کے مفادات میں بہتر ہیں؛ اگرچہ دونوں ممالک کے نقطہ نظر سے امریکہ بار بار ماضی میں ناکام رہا ہے۔ چین‘ بھارت‘ ترکی‘ جاپان‘ جنوبی کوریا اور دیگر ممالک کے درمیان امریکی تعلقات کو نقصان پہنچنے کا بھی خطرہ موجود ہے۔ٹرمپ کے داماد اور سینئر مشیر جیرڈ کوشنر نے اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو اور ریپبلکن ڈونر شیلڈون کو ایک تجویز پیش کرتے ہوئے وعدہ کیاکہ گریٹر اسرائیل کے تصور سے وہ دوسرے پرستار کی طرح خوش ہیں‘ لیکن کچھ عرصہ امن کی وجہ سے آگے نہیں بڑھیں گے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ امریکی نظر یہ کے سامنے ان مقاصد کے درمیان کوئی حقیقی تجارتی بند موجود نہیں ‘اگر امریکہ واقعی طاقتور ہے تو پھر چین سے تیل کی خریداری پر پابندی عائد کرنے کی جسارت کیوں نہیں کرتا ‘جو تجارتی مذاکرات پر اثر انداز بھی نہ ہو۔ مجبوراً بیجنگ ‘ امریکہ کے ساتھ مذاکرات جاری رکھے۔ ترکی‘ روس اسی دباؤ کا جواب نہ دیں۔ایسا بالکل ممکن نہیں ‘اس بات کا امریکہ کو بھی علم ہے ۔ مزید یہ کہ امریکہ کا نیٹو اتحادی یورپ ‘ امریکی فوج کو برقرار رکھنے کے لئے اتنے خطرناک کام میں امریکہ کا ساتھ دے اور چین کے خلاف امریکی قیادت کی پیروی کرے ۔ یہ بات بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ مصر‘ اسرائیل‘ سعودی عرب اور خلیج کے ساتھ مذاکرات میں امریکہ کو کوئی پریشان نہیں دیکھتا ‘مگر ایسا کرنے سے ایران یا دیگرامریکہ مخالف جنگوں میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
منصفانہ ہونے کے لئے‘ یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ امریکی انتظامیہ کیوں سوچتی ہے کہ وہ غیر ملکی پالیسی کے تحت مختصر مدت میںاثر انداز ہو سکتے ہیں۔کئی حالیہ غلطیوں کے باوجود‘ امریکہ اب بھی بہت طاقتور ہے۔ امریکہ اب بھی ایک وسیع اور قابل قدر مارکیٹ ہے‘ ڈالر دنیا کی بنیادی ریزرو کرنسی ہے‘ عالمی مالیات کے بنیادی ڈھانچے سے دور‘ دیگر ریاستوں یا مالیاتی اداروں کو کم کرنے کی صلاحیت واشنگٹن رکھتا ہے‘ اس کے لیے یہ معمولی بات ہے۔اس کے باوجود‘ زیادہ طاقتور وجوہ موجود ہیں‘امریکہ سب سے پہلے‘ زیادہ کمزور ریاستوں کو بلیک میل کرتا ہے یا ان کے اثرات کو اپنی پابندیوں کے تحت ضائل کر دیتا ہے۔ جب امریکہ مکمل طور پر اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے نیچے گرادیتا ہے (یعنی‘ شمالی کوریا کے شمالی بغاوت یا ایران میں تبدیلی یا پابندیوں کی صورت میں) اس کے بعد ریاست کی حوصلہ افزائی بھی کرتا ہے۔ ٹرمپ اور امریکی انتظامیہ منظم طریقے سے سفارتی پالیسیاں ترتیب دیتے ہیں ۔
تقریباً ہر ملک طاقتور اتحادیوں کا ساتھ چاہتا ہے‘ جس سے امریکہ کے سفارتی استحکام میں اضافہ ہوتاہے‘مگر چین کے ساتھ امریکہ کی معاشی سفارتی پالیسی مکمل ناکام رہی ‘ٹرانس پیسفک پارٹنرشپ کو چھوڑ کر دوسرے کلیدی شراکت داروں کے ساتھ تجارتی لڑائیوں میں مشغول رہا‘ انتظامیہ نے اپنے اقتصادی طریقوں کو بہتر بنانے کے لئے‘ متحد صنعتی طاقتوں کے وسیع اتحاد کو منظم کرنے کا موقع بھی گنوا دیا ‘جس کا چین نے بھرپور فائدہ اٹھایا‘ٹرمپ کی تجارتی ٹیم اب بھی بیجنگ کے ساتھ کئی اقسام کے معاہدے حاصل کر سکتی ہے‘ لیکن یہ بہتر ہوگا کہ وہ زیادہ بہتر اور تعاون پسندانہ کوششوں کے ساتھ انہیں حاصل کریں ‘معاشی طور پر چین ایک طاقت بن چکا ہے۔
یہ کوئی حادثہ نہیں ہے کہ روس اور چین کو ایک دوسرے کے ساتھ آگے بڑھنے کے لئے قدم بہ قدم چل رہے ہیں؛ اگرچہ وہ قدرتی اتحادی نہیں ہیں‘امریکہ کو موثر اور پائیدار بین الاقوامی معاہدے مخالفین کے ساتھ بھی درکار ہیں‘ تاکہ وہ اپنی معیشت کو چین کے مقابلے میں مضبوط کر سکے ‘ امریکہ نے 2001ء سے 2004ء تک کئی نئی پالیسیوں کوٹیسٹ کیا‘ نتائج قریب ترین ناکامی رہی۔میں سمجھتا ہوں کہ ماضی کے نتائج کا پیچھا کرنے کی کوشش سائنسی ترقی کے لئے ضروری ہے‘ لیکن کیا امریکہ واقعی اس مخصوص تجربے کو دوبارہ کرنے کی ضرورت ہے یا پھر امریکہ کو معاشی پالیسی نئے سر ے ترتیب دینا چاہیے۔