وقت ایک جیسا نہیں رہتا‘ہمیشہ یہی سنا گیا ۔ ابھی‘ گھڑی پاکستان ہی نہیں‘امریکہ کے کئی کسانوں کی طرف بھی نہیں ہے۔ امریکی کسان بھی سراپا احتجاج ہیں۔ امریکی محکمہ زراعت نے حال ہی میں جاری پانچ سالہ زراعت کی کارکردگی پر رپورٹ جاری کی ہے‘ جو دوسرے جدید اعداد و شمار کے ساتھ‘ ایک بڑھتی ہوئی عمر کے کسانوںکی تصویر عیاں کرتی ہے‘ جو قرض اور دیوالیہ پن سے جدوجہد کر رہے ہیں۔حالیہ مہینوں میں‘ امریکی کسانوں کو تاخیر سے کٹائی اور حکومت کی بندش (پابندیاں) اور سپورٹ کی ادائیگی کے ارد گرد‘ غیر یقینی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ 2020ء میں ہونے والے انتخابات میں‘ امریکی انتظامیہ کو ایک اہم سیاسی بنیادی حمایت کو برقرار رکھنے کے لیے نئے طریقوں کی تلاش ہے۔زراعت کے پیشے سے منسلک ریاستوں کی ڈونلڈ ٹرمپ کو 2016ء کے الیکشن میںحمایت حاصل رہی‘ لیکن کاروباری پالیسیوں کے بعد‘ دوسرے سٹریٹجک شعبوں کی حفاظت اورانہیں پروان چڑھانے کے لیے کسانوں کو مختصر مدت میں‘ مفادات کی قربانی دینا پڑی۔امریکی انتظامیہ مکمل طور پر اس شعبے کو نظر انداز کرنے کے نتائج سے واقف ہے۔ ٹرمپ نے ہنگامی امداد کی ادائی کاحکم دیا اور تجارتی مذاکرات کے لئے زرعی خدشات کو اہمیت دیتے ہوئے مسائل کے حل کومرکزی نقطہ بنایا۔سیاسی وعدوں کے باوجود‘ امریکی کسان جیوپولیٹکل رجحانات کا سامنا کر رہے ہیں‘ جو امریکہ کے لیے اچھی خبر نہیں۔طویل مدتی ڈیموگرافک اور تکنیکی عوامل ایسے مستقبل کی طرف اشارہ کرتے ہیں ‘جن میں زراعت صرف امریکہ میں ہی نہیں ‘بلکہ یورپ اور جاپان میں سیاسی اثرات سے محروم ہوجائے گا۔ صحت‘ زراعت اور آٹومیشن میں اضافہ شہری ‘ دیہی اور اقتصادی مفادات کو بہتر بنا دے گا۔
جزیات کے سلسلے میں‘عالمی گلوبل پروڈیوسرز اور صارفین کا زراعت کے شعبے میں سیاسی اثرات کا جائزہ لیں‘ توقریبی تحقیقات سے پتا چلے گا کہ امریکہ میں زراعت کے شعبے کو فروغ دینے والے روایتی عوامل ‘ جیسے صنعتوں میں ملازمت اختیار کرنے والے افراد کی تعداد‘ مجموعی گھریلو مصنوعات ‘ اقتصادی شراکت داری ‘یہ سب مستحکم ہیںیا منحصر سب کا تفصیلی جائزہ لینا ہوگا۔ شعبہ وقت کے ساتھ بڑھتی ہوئی کھپت‘ کسانوں کی استطاعت بڑھانے والا پول اور زراعت میں کس طرح کی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جاتا ہے۔ کیامسلسل بڑھتاہواگراف تبدیلی کے ساتھ مقابلہ کر رہا ہے یا نہیں‘سب کا بخوبی جائزہ لینا ہوگا۔ یہ عوامل آخر میں شعبے کے سیاسی اثر و رسوخ کوواضح کردیں گے۔شاید سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ موجودہ وزن مستقبل کے تجارتی مذاکرات میں کتنا اہم ہوتا ہے۔اس وقت‘ جاپان اپنی آبادی کے خاتمے کیساتھ‘ زراعت کے شعبے میں کمزورہوتا جا رہاہے۔یورپی یونین میں‘ عام زرعی پالیسی کے تحت اخراجات‘ گاؤں کی آبادی میں کمی کے ساتھ متوازی ہیں۔اس کے برعکس‘ برازیل اور آسٹریلیا میں زرعی اثرات بڑھ رہے ہیں‘لیکن امریکہ‘ جاپانی اور یورپی زراعت کے شعبے کو فروغ دینے والے طاقتورعوامل ‘ راتوں رات تک غائب نہیں ہوں گے۔ مطلب یہ ہے کہ سیاسی طاقت اور اثر و رسوخ کی میراث اس بات کو یقینی بنائے گی کہ ان کے خدشات کو اہم تجارتی مذاکرات میں‘ بنیادی ڈیموگرافک تبدیلی کے ساتھ مرکزی کردار اد کرتے رہیں گے ۔
امریکہ اور جاپان کے تجارتی مذاکرات میں زراعت کی پوزیشن زیادہ تر براہ راست ثابت ہوتی ہے۔حقیقت میں اکتوبر 2018ء میں اشارہ دیکھنے کو ملا ''جاپانی قانون ساز‘ امریکہ کے ساتھ تجارتی مذاکرات کے دوران زراعت پر رعایت کر سکتے ہیں‘ اگر وہ فیصلہ کریں کہ ملک میں کاروں کی صنعت زیادہ ہ اہم ہے‘‘۔حال ہی میں مذاکرات کے دوران جاپان کے پروڈیوسروں کو زرعی رسائی کے پروان چڑھانے پر اتفاق کیا گیا‘ اس حالیہ تجارتی معاملات میں پیش کی گئی پالیسی ٹرانس پیسفک پارٹنرشپ کے جامع اور ترقی پسند معاہدے سے متعلق ہے۔اصل مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ ‘ یورپی یونین اور جاپان کے کسان وقت کے ساتھ بڑھ رہے ہیں۔اس وقت‘ امریکی فارمز بڑے بڑے ہو رہے ہیں‘ یہاں تک کہ چھوٹے کسانوں کو بھی ان کی راہ پر چلنا پڑتا ہے۔
جاپان کے زراعت کے شعبے کے خاتمے کے برعکس‘ یورپی یونین کے زراعت کی صنعت نے خاص طور پر فرانس میں کافی سیاسی اثرات برقرار رکھے ہیں‘ مذاکرات میں ایک اور رکاوٹ بننے کے لئے‘ یورپی زرعی پروڈیوسرز ‘نیشنلسٹ فورسز لیبلنگ پر ثابت قدم ہیں‘ جس سے بیرونی‘ جغرافیائی مخصوص مصنوعات ان کی پہچان اور برانڈ بنتی ہیں۔ ان کے زراعت شعبوںمیں دیگر تحفظات بھی ہیں۔کم سے کم مستقبل میں‘ یہ خدشات آبادی اور تکنیکی رجحانات سے کہیں زیادہ یورپ میں زراعت کے سیاسی ساکھ کو کھا رہے ہیں۔تجارتی مذاکرات اور ٹیرف پر اختلافات ‘ممالک کے درمیان دوریاں بھی پیدا کرتے ہیں۔ زراعت کے شعبے کا سیاسی اثر و رسوخ دیگر تجارتی مذاکرات میں بھی اہم ہے۔ چین کے ساتھ جاری تجارتی جنگ میں ان کی تازہ ترین حرکتوں میں سے ایک میں‘ ٹرمپ نے بیجنگ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے ریٹیلری ٹیرف کو امریکی زراعت سے دیگر سامانوں میں منتقل کریں۔چین کے باہمی منافعوں نے امریکی کسانوں کو سختی سے مارا ہے۔ امریکی کسانوں کی برآمد کردہ شعبوں میں‘ دنیا کے سب سے بڑے بازار تک رسائی محدودہو کر رہ گئی ہے۔ ریاستوں کو مذاکرات کی اس میز پر بیٹھنا پڑا‘ کیونکہ دنیا میں سیاحوں نے دوسری جگہوں پر تجارت کے معاملات طے کر لیے ‘ ٹرانس پیسیفیک پارٹنر شپ ‘ یورپی یونین اور کینیڈا کے درمیان جامع اقتصادی اور تجارتی معاہدوں سے سب ممالک نے فائدہ اٹھایا۔
امریکی صدر کے بیانات‘ الفاظ اور عمل کے درمیان فرق ہے۔نئی حقیقت یہ بتاتی ہے کہ امریکی زرعی شعبے میں واشنگٹن کو طویل مدتی پالیسیوں کو نافذ کرنے کے لیے کافی دشواریوں کا سامنا ہے۔ جیسے زراعت کی امداد کی بحالی‘ غیر ملکیوں کے لئے ویزا کے نظام کو بحال کرنا جو زراعت کے کام کا حصہ ہیں‘کسانوں کے درمیان کام کرنے کے لیے چھوٹے افراد کو جوڑنااور ماحولیاتی عوامل کو کم کرنے کی وجہ سے‘ کم مدت میں چینی مارکیٹ تک زیادہ رسائی کے وعدوں سے بھی مکمل طور پر فائدہ اٹھانے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ امریکہ کے مڈ ویسٹ میں بڑے پیمانے پر موسم بہار میں‘ سیلاب سے گزشتہ سال کے اناج اور سویا کا زخیرہ تباہ ہوگیا‘ جبکہ چین میں فیڈ کے اناج کی طلب اگلے تین سال کے لیے کافی ہے۔