"NNC" (space) message & send to 7575

سونے ((Goldکے ایٹمی ہتھیار

امریکہ نے کبھی انٹرمیڈیٹ رینج نیوکلیئر فورسز (آئی این ایف) کے معاہدے میں چین کو اپنی طرف متوجہ نہیں کیا۔واشنگٹن ابھی بھی امید لگائے ہوئے ہے کہ نئے سٹریٹجک ایٹمی ہتھیار کنٹرول کرنے کے معاہدوں پر بیجنگ اور ماسکو پر بھروسہ کر تے ہوئے دستخط کر سکتا ہے۔ قدرتی طور پرموجودہ معاہدوں کو نئی شکل دیتے ہوئے ‘نئے سرے سے تعمیر کرکے ‘گلوبل طاقتوں میں وسیع پیمانے پر ہتھیاروں کی دوڑ کو نمایاں طور پر روکا جا سکتا ہے۔ خاص طور پر سٹریٹجک ایٹمی ہتھیاروں اور ترسیل کے نظام کی پابندیوں پر دستخط کیے جا سکتے ہیں۔
ایٹمی ممالک کے درمیان اعتماد کا فقدان ہمیشہ ہی رہا ہے ۔عالمی ہتھیاروں کی مطابقت پذیری کے لیے غیر معمولی اور نئے آغاز کی تجدید کرنے سے قبل نئے معاہدوںپر دستخط کرنے کی کوششیں کامیاب ہوسکتی ہیں۔ بالآخر‘ چین نے اس عمل کو آگے بڑھاتے ہوئے مثبت قدم اٹھایا ہے۔ بیجنگ اپنے اٹھائے ہوئے اس اقدام سے عالمی سطح پر زیادہ سے زیادہ امن کو برقرار رکھ سکے گا۔چین طویل عرصے سے سٹریٹجک ہتھیاروں کے کنٹرول کے معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کرتا رہا‘ جس کی کئی وجوہ موجود ہیں ۔ چین ‘امریکہ اور روس کے ساتھ معاہدوں میں شامل ہوسکتا ہے؛ بشرطیکہ اس طرح کے معاہدے چین کے ہتھیاروں کے خلاف شرائط پر اثر اندازنہ ہوں۔ INF کے معاہدے انفرادی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس معاہدے کو امریکہ نے حال ہی میں ترک کر دیا‘ کیونکہ بیجنگ ان معاہدوں میں شامل نہیں ہوا تھا۔
چین ایسے متعدد سٹریٹجک ایٹمی ہتھیار نہیں رکھتا ؛اگر ہوں بھی تو کم تعداد میں ہوں گے‘ جیسے کروز اور بیلسٹک میزائل ‘جو زمین پر شارٹ یا انٹرمیڈیٹ رینج رکھتے ہوں۔ روس اور امریکہ کے پاس ان میزائل کی وسیع تعداد موجود ہے ۔ دوسرے الفاظ میں‘ INF معاہدے چین کے لیے غیر معمولی ہو ں گے‘ ان معاہدوں میں شامل ہونا‘ اس کی برتری کو بھی واضح کرتا ہے۔ایک عنصر چین کے لیے اہم حدود کی نوعیت کا حامل ہوگا۔ کیابیجنگ روس اور امریکہ کے مقابلے میں اس کے ایٹمی ہتھیار انوینٹری پر کم سے کم یا زیادہ سے زیادہ ‘حد تک متفق ہوجائے گایا پھر تینوں کو مساوات کا سامنا کرنا پڑے گا؟اگر بعد میں ایسا ہوتا ہے تو‘ چین 500 فیصد اس کے سٹریٹجک ایٹمی ہتھیار ڈالنے کے لیے آزاد ہو گا (جس میں فی الحال تقریبا 280 ہتھیار موجود ہیں) اس صورت میں‘ چین جوہری ہتھیار وںپر کسی عملی عددی حدود کا موثر طریقے سے سامنا نہیں کرے گا۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق اس نے بڑے پیمانے پر ہتھیار کی توسیع کا آغاز کر رکھاہے۔
اس وقت‘ چین جوہری ہتھیاروں کی بقایاجات کے بارے میں فکر مند ہے‘جیسا کہ دوسرے ایٹمی ممالک سوچ و بچار میں گم ہیں ۔ نئی ٹیکنالوجی (ہائپرسونک میزائل) پر امریکہ بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رہا ہے ۔امریکہ بیلسٹک میزائل کی طرز پر اپنا دفاع مستحکم کر رہا ہے۔ اس کے مطابق؛ اگر سارے ایٹمی ممالک ایک نقطے پر متفق ہوں کہ وہ ایٹمی ہتھیاروںکی توسیع کے عمل کو ترک کر دیں گے۔ امریکہ بھی ممکنہ طور پر اپنے سٹریٹجک ہتھیار محدودکرنے کوشش کرے گا۔ چین کے خدشات سب کو خوفزدہ کیے ہوئے ہیں‘ اس تشویش کو دیکھتے ہوئے‘ چین ایک متحد بنیاد پر نئے معاہدوںمیں شامل ہونے پر غور کر سکتا ہے‘ جس کے دستخط سے تمام ایٹمی ممالک مساوات کی بنیاد پر عمل درآمد یقینی بنائیں گے۔
بیجنگ دوسرے مقامات پر امریکہ کی رعایتوں کے بدلے میں معاہدے پر دستخط کرنے پر اتفاق کر سکتا ہے۔ چین اورامریکہ‘ چین کے جنوبی سمندر میں وسیع پیمانے پر تجارتی کئی محاذوں پر الجھے ہوئے ہیں۔ واشنگٹن نے ان پوائنٹس پر غور کرنے کی پیشکش بھی کی؛‘اگر چین سٹریٹجک ایٹمی ہتھیاروں کے کنٹرول کے معاہدوں پر اتفاق کرتا ہے تو باقی معاملات پر بھی اہم پیش رفت ہو سکتی ہے۔اس سے قبل بیجنگ نے ایسا کوئی معاہدہ نہیں کیا ہوا اور نہ ہی وہ کوئی ایسی خواہش رکھتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو محدودرکھے ‘ صرف چندمعاہدوں پر جیسا کہ بیلسٹک میزائل دفاع کے لیے اور دیگر مسائل پر چھوٹے چھوٹے معاہدے کیے ہوئے ہے۔
امریکہ کو چین سے خدشات ہیں کہ وہ اس دوڑ میں کبھی پیچھے نہیں ہٹے گا۔ بیجنگ امریکہ کے ساتھ کئی ایٹمی معاہدوں کے لیے تیار ہے؛ اگر امریکہ چین کومختصر اور انٹرمیڈیٹ حد تک مارک کرنے والے زمینی ایٹمی میزائل کی تیاری پر معاہدے کرے ‘ لیکن واشنگٹن اس طرح کے تکنیکی اور سٹریٹجک رعایت دینے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔چین بھی اس بات سے بخوبی آگاہ ہے کہ ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہو گا۔ خاص طور پر امریکہ بیلسٹک میزائل اپنے دفاع کے لیے تیار کرنے کی کوششوں پرمطمئن نظر نہیں آتا‘ جبکہ روس بھی اس کی سرمایہ کاری کو روکنے کے لیے تیار نہیں ‘ جس میں ایٹمی ترسیل کے ہتھیار شامل ہیں ‘جو بڑے پیمانے پر تیار کیے جا رہے ہیں۔امریکہ بھاری رعایت فراہم کرنے کو تیار ہے‘ تاکہ بیجنگ اپنی پیداوار کو محدود کردے۔ 
تمام ایٹمی مسائل پر بڑی طاقتوں کے درمیان تین طرفہ سٹریٹجک ہتھیاروں کے کنٹرول کے معاہدوںپر پیش رفت کا امکان بھی موجود ہے۔ کوئی بھی کامیاب ایٹمی معاہدہ ‘ ان تین طاقتور ممالک کی جانب سے کڑوے فیصلوں کا مرہون ِمنت ہوتا ہے ۔ چاہے ‘ان ممالک کے درمیان کتنے ہی کامیاب معاہدے ہوئے ہوں‘ خواہ وہ طویل مدتی ہوں یا مختصر ‘ہمیشہ اعتماد کا فقدان ہر جانب رہا ؛اگر چین نئے معاہدوں کی میز پر آ بیٹھتا ہے اور ان ممالک میں اتفاق ہو جاتا ہے‘ تو یقینا ان ممالک کے درمیان اعتماد بڑھے گا اور نئی راہیں کھلیں گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں