ایران کے ساتھ امریکہ کے تعلقات میں کشیدگی ‘ ایک بار پھر اپنے عروج کو پہنچ گئی ہے۔ اسی کشیدگی کے درمیان ایران کی حالیہ مبینہ دھمکیوں کے پیش نظر‘ امریکی جنگی بیڑوں اور بمبار طیاروں کی شرق ِاوسط میں آمد سے حالات نازک موڑ پر پہنچنے کے اشارے مل رہے ہیں۔ امریکی فوجی پیش رفت سے ایسا لگتا ہے کہ شرق ِاوسط میں ایک اور جنگ کی تیاریاں شروع ہو گئی ہیں اور یہ جنگ کسی بھی وقت بھڑک سکتی ہے‘ جو خطے میں لڑی جانے والی اب تک کی سب سے بھیانک اور مہلک جنگ ثابت ہو سکتی ہے ‘کیونکہ اس جنگ سے اس خطے کے ملکوں کے ساتھ ساتھ کئی دیگر اہم طاقتوں کے مفادات بھی وابستہ ہوں گے۔ بہر حال موجودہ کشیدگی کے پیش نظر ‘امریکہ نے فضائی دفاع کے میزائل سسٹم پیٹریاٹ ‘ جنگی بحری بیڑے یو ایس ایس آرلنگٹن اور یو ایس ایس ابراہم لنکن کو بحرۂ روم سے آگے بڑھا کر بحرۂ احمر میں تعینات کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ بمبار52-Bطیارے بھی قطر میں امریکی فوجی اڈے پر اتر گئے ہیں۔ امریکہ کا دعویٰ ہے کہ یہ فوجی تعیناتیاں‘ ایران کی جانب سے خطے میں ‘امریکی افواج کو لاحق خطرے کے پیش نظر کی جا رہی ہیں۔ امریکہ نے ان دھمکیوں کی نوعیت سے متعلق بہت کم معلومات دی ہیں‘ جنہیں ایران نے ''احمقانہ‘‘ کہتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔ ایران کا کہنا ہے کہ یہ تعیناتیاں نفسیاتی جنگی حربے ہیں‘ جن کا مقصد اسے ڈرانا دھمکانا ہے‘ جبکہ کچھ دنوں قبل امریکی قومی سلامتی کے مشیر‘ جان بولٹن کا کہنا تھا کہ ان فوجی تعیناتیوں سے ایرانی حکومت کو واضح اور دو ٹوک پیغام بھیجا جائے گا کہ اس خطے میں امریکی مفادات پر‘ کسی بھی حملے کا بھر پور جواب دیا جائیگا۔
ویسے تو امریکہ اور ایران کے درمیان کشیدگی کی ایک طویل تاریخ رہی ہے‘ لیکن حالیہ کشیدگی اس وقت دوبارہ شروع ہو ئی‘ جب ٹرمپ‘ امریکہ کے نئے صدر منتخب ہوئے۔ ٹرمپ یہ پہلے ہی وعدہ کر چکے تھے کہ اگر وہ منتخب ہو گئے تو ایران کے ساتھ ہونے والے خراب معاہدے سے امریکہ کو الگ کر دیں گے۔ آخر کار انہوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کئے گئے اپنے اس وعدے کو عملی جامہ پہناتے ہوئے‘ ایک سال قبل ایرانی نیو کلیائی معاہدے سے امریکہ کو علیحدہ کر لیا‘ جس کے بعد سے امریکہ اور ایران کے سفارتی تعلقات میں سرد مہری پائی جاتی ہے۔ معاہدے سے امریکہ کے علیحدہ ہونے کے باوجود‘ ایران نے پانچ دیگر ممالک کے ساتھ اس معاہدے کو برقرار رکھا ہوا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی نیوکلیائی توانائی ایجنسی ''آئی اے ای اے‘‘ نے بھی نیو کلیائی معاہدے پر عمل درآمد کے حوالے سے‘ ایران کے مثبت رویے کی تصدیق کر دی ہے کہ وہ نیو کلیائی معاہدے کی پوری طرح پاسداری کر رہا ہے۔ بہر حال ٹرمپ انتظامیہ نے معاہدے کے دیگر فریقوں کے موقف کی پروا کئے بغیر‘ اب ایران پر دبائو بڑھانا شروع کر دیا ہے۔ امریکی پابندیوں کی وجہ سے ایران کی معیشت پر بے تحاشا بوجھ ہے۔ایران نے اس دبائو سے نکلنے کے لئے جوابی کارروائیاں شروع کر دی ہے۔ اس نے امریکہ کے یکطرفہ طور پر نیو کلیائی معاہدے سے نکلنے کے ایک سال بعد‘ اب اپنی شرائط کا اعلان کر دیا ہے۔ایران کا کہنا ہے کہ اگر معاہدے کے باقی فریقین دو ماہ کے اندر معاہدے میں طے کی گئی شرائط کو نافذ نہیں کریں گے‘ تو وہ بھی معاہدے کی پاسداری ختم کرتے ہوئے‘ یورینیم کی افزودگی کرنا شروع کر دے گا اور اگر اس معاہدے پر عمل درآمد نہ ہوا تو وہ بھی آزاد ہو گا کہ وہ اپنے نیو کلیائی پروگرام پر عمل کرے۔
ایران نے مجموعی طو رپر اس معاہدے کی پاسداری کی ہے‘ لیکن وہ امریکی پابندیاں‘ جن کو اس معاہدے پر عمل درآمد کی صورت میں ختم کیا جانا مقصود تھا‘ ان کو دوبارہ نافذ کر دیاگیا ہے۔ایرانی معیشت کو پابندیوں کی وجہ سے نقصان پہنچ رہا ہے‘ جس پر تہران کہہ رہا ہے کہ ''بہت ہو گیا‘‘ اب دبائو یورپی طاقتوں‘ فرانس‘ برطانیہ اور جرمنی پر ہے‘ جنہوں نے اس معاہدے کو طے کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ایران ‘ان یورپی ممالک سے مطالبہ کر رہا ہے کہ تم اپنا وعدہ نبھائو۔یورپی ممالک کو دبائو کو کم کرنے کے لئے عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ ایرانی صدر حسن روحانی نے منشیات کی سمگلنگ اور تارکین ِوطن کے یورپی مماک میں پہنچنے کو روکنے میں اہم کردار کا ذکر بھی کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں؛ امریکی پابندیوں کا مطلب ہو گا کہ ایران ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا متحمل نہیں رہے گا۔ ادھر یورپی طاقتوں نے ایران کے اس الٹی میٹم کو مسترد کر دیا ہے‘ جس میں معاہدے کو درجہ بدرجہ معطل کرنے کی بات کہی گئی ہے۔
ایران کے مذکورہ اعلان کے بعد یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ اور فرانس‘ برطانیہ اور جرمنی کے وزرائے خارجہ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ''جوہری اسلحہ کے پھیلائو کو روکنے والوں کے لئے '' جے سی پی او اے‘‘ ایک کلیدی کامیابی ہے۔ یورپی یونین نے ایران سے کہا ہے کہ جے سی پی او اے کے تحت جو کچھ بھی طے پایا ہے‘ اس پر عمل درآمد جاری رکھے‘ جس طرح وہ اب تک کرتا رہا ہے اور کشیدگی بڑھانے والے اقدامات سے گریز کرے۔اب‘سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ آنکھ مچولی آخر کب تک؟کشیدگی نہ بڑھانے کی ذمہ داری کی توقع‘ صرف ایک فریق سے کیوں کی جا رہی ہے؟ دیگر چھ فریقوں سے جب ان کی ذمہ داریاں نبھانے کا مطالبہ کیا جاتا ہے ‘ تو صرف فریقِ واحد کو ہی صبر کا دامن تھامے رکھنے کا کہا جاتا ہے۔ایک اہم ترین فریق‘ یعنی امریکہ نے خود کو معاملے سے الگ کر لیا ہے اور اس کشیدگی کے لئے خاص طور پر ذمہ دار امریکہ ہی ہے۔ دیگر اہم فریق یورپی یونین سے جب ان کی ذمہ داری نبھانے اور امریکی پابندیوں پر قدغن لگانے کا مطالبہ کیا جاتا ہے‘ تو اس کا کوئی مثبت جواب نہیں دیا جاتا۔
ایران مایوسی کا شکار ہونے لگا ہے‘ اسے تمام راستے بند دکھائی دینے لگے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ طویل انتظار او رتمام فریقوں کے سردمہری کے روئیے کے پیش نظر‘ ایران نے بھی الٹی میٹم دینا شروع کر دیا ہے‘ جس کی آڑ میں امریکہ نے اپنے جارحانہ اقدام آگے بڑھانے شروع کر دئیے ہیں اور خطے میں فوجی ساز و سامان کی بڑے زور و شور سے تیاریاں کی جا رہی ہیں‘ جس کا نتیجہ پھر خونریزی اور تباہی کے سواکچھ نہیں نکلے گا۔