امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا میموریل ڈے کے اختتام پر جاپان کا دورہ امریکہ اور جاپان کے درمیان پیچیدہ تعلقات کی یاد دہانی کراتا ہے۔ رسمی تقریبات کے علاوہ‘ نئے شہنشاہ سے ملاقات اور امریکی فوجی اہلکاروں کا دورہ‘ اہمیت کا حامل ہے۔ صدر ٹرمپ نے جاپانی وزیر اعظم شینوزو ابی کے درمیان تجارتی معاملات پر بات چیت ہوئی ۔ جاپان کے ساتھ تقریباً 68 بلین ڈالر کا تجارتی خسارہ ڈھکا چھپا نہیں۔چین ‘ ایران اور شمالی کوریا کے درمیان علاقائی سکیورٹی کے امور بھی زیربحث آئے ۔ دو طرفہ تجارتی معاہدے اور متعدد طریقوں سے باہمی سلامتی کا تعاون ‘ جدید امریکی جاپان تعلقات کو مستحکم کرتے ہوئے دکھائی دیتا ہے۔
6 اور 9 اگست 1945ء کودوسری جنگ عظیم میں انسانی تاریخ کا سب سے شرمناک واقعہ پیش آیا‘ جسے آج بھی تاریخ کا بدترین دن مانا جاتا ہے۔ امریکا نے جاپان کے شہر ہیروشیما اور ناگاساکی میں ایٹم بم گرایا‘ جس نے دیکھتے ہی دیکھتے 2 سے 3 لاکھ کے درمیان لوگ لقمہ اجل بنے۔ آج بھی اس دن کے بارے میں سوچا جاتا ہے تو آنکھوں سے خون کے آنسوںبہہ نکلتے ہیں۔کیا ایسے انسان بھی ہوسکتے ہیں‘ جو لاکھوں بے گناہ لوگوں کی جان منٹوں میں لے لیں۔ ایٹمی بمباری کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے معصوم لوگوں کے جسموں سے گوشت پگھلنے لگا‘ اسی بمباری کی وجہ ہے کہ آج بھی اگر ہیروشیما یا ناگاساکی میں لوگ پیدا ہوتے ہیں تو ان میں کوئی نہ کوئی خلقی نقص پایا جاتا ہے۔ ایٹم بم انسانیت کے لیے انتہائی تباہ کن ہے‘جہاں اس کا نقصان ہوا ‘وہیں دنیا کے لیے عبرت کا نشان بھی بنا ۔اس واقعے کے بعد دنیا نے دوبارہ ایسی کسی غلطی کی تاحال جرأت نہیں کی ہے۔
1945ء میں ماحول امریکی جاپانی سیکورٹی ‘ اقتصادی مفادات ایک دوسرے سے مختلف اور متعدد مشکلات پر مبنی ہیں۔ جاپان ‘ امریکہ کے تعلقات اور کشیدگی کے حوالے سے تاریخی کتب بھری پڑی ہیں۔اس سے قبل کموڈور میتھیو پیری کے ''بلیک شپس‘‘ 1853ء میں ایڈوبی میں داخل ہوگئے تھے۔پہلی جنگ عظیم سے 1922ء تک علاقائی حدود کے تعین کو لے کر کئی بار کشیدگی بڑھی۔1930ئکے عشرے کے آواخرمیں صنعتی وسائل پر کئی معاملات طے ہوئے۔دوسری جنگ عظیم کے بعد تعلقات مزیدخراب ہوئے ۔دونوں ممالک کے تعلقات کچھ حد تک مثبت رویے سے آگے بڑھے‘ جنہیں ''یاشودہ ڈاکٹرائینـ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ وزیر اعظم شیگیرو یا شودہ نے جاپان کو اپنی قومی سلامتی اور دفاع کواحتجاجاً امریکہ کے حوالے کردیا‘اس کے بدلے میں امریکی وسائل کو استعمال کیا اور جدید معیشت کی بحالی اور تعمیر کی کوششوں پر توجہ دی۔
پیسفک جنگ کے بعدجاپان کے سٹریٹجک مقامات کو لے کرامریکہ کے ساتھ تعلقات ایک دائرے میں آئے ۔ جون 1950ء میں کوریائی جنگ کے خاتمے نے جاپان کو ایشیاء میں کمیونزم کے پھیلاؤ پر مشتمل ‘امریکی دفاعی فن تعمیرکا ایک اہم حصہ قرار دیا جاتا ہے۔ جاپان کی کوریا اور انڈوچائنہ جنگ بھی ایٹمی حملوں کے 5سال بعد چھڑ گئی ۔دونوں ممالک امریکہ اور جاپان کے درمیان 1951ء میںسکیورٹی معاہدہ طے پایا اور کئی مراحل سے گزر کر دونوں ممالک کے تعلقات بحال ہوئے۔ امریکہ نے بنیادی حقوق فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی‘ امریکی دفاعی منصوبہ بندی کام آئی اور جاپان میں امریکی کرنسی کو اہمیت ملی اور امریکی ڈالرمضبوط ہوا۔ سردجنگ کے دوران سوویت پیسیفک فلیٹ کو بوتل میں بند کرنے کے لیے امریکی کوششیں کام آئیں۔واشنگٹن نے جاپان کو اپنے خود دفاعی قوت کے ساتھ کھڑا رہنے پر آمادہ کیا یاشودہ نظریات بھی اسی محور کے گرد گھومتے تھے۔جاپان کی اپنی اقتصادی طاقت کی تعمیر کے دوران‘ مقامی فوج کی صلاحیت محدود تھی۔ جاپان نے امریکی بیس کے لیے (موثر انداز سے اپنے قومی دفاع کو فروغ دینے کے لیے) مالی امداد فراہم کی ‘یوں ایک صنعتی پاور ہاؤس میں ایک متبادل معیشت سے تیزی سے منتقل ہوئی۔ایک جملہ ـ Made in Japan نے صنعتی دنیا میں نئی تاریخ رقم کی۔ اعلیٰ درجے کی ٹیکنالوجی ‘معیار کے مینوفیکچررز نے سستی اشیاء کو پیچھے دھکیل دیا۔ ابتدائی طور پر‘ سلامتی کے ذمہ داریوںپر جاپان کی اقتصادی توجہ نے ‘امریکہ سے ٹوکیو پر خاموش تنقید کا اظہار کیا۔اس سے قبل اتحاد میں اس کا وزن نہیں تھا۔اچانک جاپان اقتصادی طاقت کے طور پر نمودار ہوا‘ لیکن 1990ء کے عشرے تک‘ ٹیکنالوجی کے تنازعات کسی بھی سنگین ہڈی کی بجائے ‘ زیادہ تر بیانات میں پائے جاتے تھے۔
امریکہ اور جاپان کے درمیان تجارت میں پہلا بڑا بحران 1973ء میں عرب تیل کے پابندیوں کے ساتھ شروع ہوا۔یہ تنازع '' یوم کیپر‘‘ جنگ کی طرف سے پیدا ہوا۔ نتیجے میں تیل کا جھٹکا جاپانی آٹو سیلز انڈسٹری میں محسوس کیا گیا‘ لیکن امریکہ میںجاپانی مصنوعات کی مانگ بڑھی ‘ایک نیا راستہ بھی کھلا۔ جاپان کی گاڑیوں کی فروخت امریکہ میں1970ء کے عشرے کے آخر میں کئی گنا بڑھ گئی ۔ اس وقت امریکی آٹومیکرزاپنے خود کے معاشی مسائل کا سامنا کر رہے تھے‘ یوںکاروباری کشیدگی مزید بڑھنے لگی اور1981ء کو کچھ حد تک برآمد ی پابندیاں لگائیں گئیں۔ آٹوموبائل انڈسٹری مقابلہ توجہ کا مرکز تھا۔ 1980ء کے عشرے میں یہ ابھرتی ہوئی اعلیٰ ٹیکنالوجی کا میدان بن چکا تھا۔امریکہ میں جاپانی سرمایہ کاری بڑھنے سے تجارتی تنازعات مزیدبڑھنے لگے۔1980ء کے عشرے تک‘ امریکی اور جاپانی تجارتی جھگڑے کئی گنا بڑھ چکے تھے ۔ جاپان کے اندر‘ گزشتہ دہائی کے دوران قوم پرستی کا ایک جذبہ بھی نظر آیا۔ 1989ء میںٹرانسپورٹ وزیر (اور بعد میں ٹوکیو کے
گورنر) شینٹوارو اسحاہر نے سونی کمپنی کے چیئرمین اکیو مورتا کے ساتھ ایک کتاب لکھی‘ جس کا سرورق تھا ''جاپان اب نہ بھی کر سکتا ہے‘‘ اس کتاب نے جذباتی طور پر جاپانی اقدامات کی مذمت کی۔جاپان نے طویل عرصے سے امریکی ہاتھوں میں اپنے قومی مفادات کو چھوڑ دیا تھا۔ یہ ملک کا قیام کرنے کا وقت ہے‘ جاپان کی اپنی پوزیشن پر زور دیا گیا اور امریکی مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے ''اب نہیں ‘‘ کا لفظ زیادہ استعمال کیا گیا۔ ایک مضبوط اور زیادہ آزاد جاپان کے لئے ایک چھوٹے سہی ‘مگر نئے دور کے آغاز کا اشارہ تھا۔امریکہ میں جاپانی مخالف جذبات کو بڑھانے کے لیے‘ واشنگٹن نے جاپان کو غیر منصفانہ تجارت کے طور پر پیش کیا ‘ جس میں سفارتی تعلقات میں کشیدگی بھی دیکھنے کو ملی ۔
گزشتہ کئی عشروں کے دوران‘ جاپان سست روی سہی‘ مگرامریکی دفاعی قوتوں پر کم انحصار کرتے ہوئے اپنی دفاعی قوت کو بڑھانے میں لگارہا ۔ بعض طریقوں سے‘ کچھ علاقائی سکیورٹی کی ذمہ داریاں خود لینا شروع کر دی ہیں۔ جاپان سٹریٹجک مقام پر‘ تیز رفتاری سے بڑھتے ہوئے امریکہ اورچین کا مقابلہ کرنے میں اعلیٰ درجے کی تکنیکی معلومات‘ متوازی طورپرمختلف ریاستوںکے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہے اوربڑھتی ہوئی سکیورٹی تعاون کو فروغ دے رہا ہے۔ الغرض اس وقت‘ ایک بحری ٹریڈنگ ملک کے طور پر ٹوکیو اعلیٰ درجے کی معیشت اور بنیادی حیثیت رکھتا ہے‘جو امریکہ کے ساتھ برابری کی بنیاد پربات کرتا ہے۔