"NNC" (space) message & send to 7575

سفارتی قتل

امریکی صدراور شمالی کوریاکے رہنما کم جوگ ان ‘ کی12 جون 2018 ء کوسنگاپور میں امریکہ اور شمالی کوریا کے سربراہی اجلاس میں ملاقات ہوئی۔ایک غیر متوقع رپورٹ ہے کہ شمالی کوریا اور امریکہ دونوں ممالک کے درمیان ناکام مذاکرات کے بعد شمالی کوریا نے سنیئر سفیروں کو کڑی سے کڑی سزا بھی دے چکے ہیں۔رپورٹ میںاس بات کا ذکر نہیں کیا گیا کہ دونوں ممالک کے درمیان کن امور پر بات چیت ہوئی۔بعض حلقوں میں یہ باتیں بھی گردش کر رہی ہیں کہ کیا رپورٹ درست ہے؟ شمالی کوریا نے بہت سی چیزوں کے ساتھ‘ اس حوالے سے اپنی پالیسی واضح نہیںکی ۔جنوبی کوریا کے ایک اخبار''چوسن البو‘‘ میں ایک خبر چھپی ‘جس نے امریکی انتظامیہ کو چوکنا کر دیا۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ شمالی کوریا کے صدر نے اپنے سفیروں کو امریکہ سے ناکام سفارتی مذاکرات پر قتل کروا دیا ہے۔شمالی کوریا میں میڈیا آزاد نہیں ‘وہاں صرف چند خبارات اور ٹی وی چینلز ہیں ‘جو پرو گورنمنٹ کام کرتے ہیں۔اخبار میں چھپنے والی رپورٹ ایک معما بن چکی ہے‘ تاہم امریکی سابق انٹیلی جینس کے اہلکار اور جنوبی کوریا کے مبصرین ایسے اقدامات سے آگاہ تھے۔خبر کی تصدیق یا تردید ‘ابھی تک
نہیں ہوسکی۔امریکی انتظامیہ نے اس معاملے پر اپنا موقف بھی دیاکہ ''ہمیں اس ردعمل میں محتاط رہنے کی ضرورت ہے‘‘کوریا کے لئے سی آئی اے کے سابق ڈپٹی ڈویژن کے چیف‘ شمالی کوریا امورکے ایک ماہر بروس کلنگن‘ نے کہا ہے کہ ہمیں یقین تھا یہ نمک چکھنا ہی پڑے گا۔جوابی سوالات کے باوجود‘ حکام اور ماہرین کا خیال ہے کہ شمالی کوریائی آمر غصہ میں ہے ‘ ناخوش ہے اور اس قسم کے خطرات کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔جنوبی کوریائی ریاستی ذرائع ابلاغ سے معلوم ہوا ہے کہ شمالی کوریا نے امریکی حکام کے فیصلے نہ مانتے ہوئے مئی کے آغاز میں مختصر رینج میزائل کے تجربے کیے اور دیگر چھوٹے پروجیکٹس مکمل کر لیے ہیں۔
چوسن البو‘ رپورٹ کے مطابق‘ شمالی کوریا نے اپنے سفارتکاروں میں سے پانچ کو سزائے موت دی‘ان میں سے ایک واشنگٹن سے مذاکرات کرنے والے سنیئر سفیر کم ہاکوک بھی شامل ہیں۔ سب سے زیادہ تجربہ کار مغربی حکام اور شمالی کوریا کے ماہرین ‘اس حقیقت فکری اور افواہوں کو سمجھنے کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ایسی خبریں صرف دو ممالک ہی نہیں ‘بلکہ عالمی سطح پر بھی گہرا اثر ڈالتی ہیں۔ شمالی کوریا کی حکومت معاشرے کے تمام پہلوؤں پر لوہے جیسی گرفت برقرار رکھتی ہے‘یہی وجہ ہے کہ ایسے اقدامات سے تجزیہ کاروں کو ملک کی منتقلی طاقت کی ساخت کی تصویر بنانے میں دشواریاں پیش کرتے ہیں اور ان کو پہیلیاں بوجھنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔
شمالی کوریا سے کوئی بھی معلومات حاصل کرنا مشکل کام ہے‘کیونکہ حکومت کے اندرونی کاموں میں کوئی بھی اہلکارحصہ نہیں لیتااور نہ ہی اس قسم کی جسارت کر سکتا ہے۔ کسی بھی قسم کی معلومات حاصل کرنے کے لئے ناقابل یقین حدجانا پڑتا ہے۔ ایک غیر ملکی مبصرنے دعویٰ کیا کہ جنوبی کوریا میں دیگر اہم جنوبی کوریائی اخبارات اور جنوبی کوریائی حکومت کے ساتھ ساتھ‘ چوسن البوایک مخلوط ٹریک ریکارڈ رکھتا ہے ‘ماضی میں‘ جنوبی کوریائی انٹیلی جینس کے حکام اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے نے خبر آئی کہ شمالی کوریائی حکام کو قتل کر دیا گیاہے‘ جبکہ انہیں چند ماہ بعد دوسری ملازمتوں میں دوبارہ زندہ دیکھا گیا۔بروکنگ انسٹی ٹیوٹ کے سابق سکالر اور سی آئی اے کے سابق سنیئر تجزیہ کار جان ایچ پاک نے کہاہے کہ یہ کہانی مکمل طور پر قابل قبول ہے‘ لیکن شمالی کوریائی حکام کئی مرتبہ غائب ہونے کی مشق کر چکے ہیں۔
ممکنہ اشارے مل رہے ہیں کہ شمالی کوریا کے ذرائع ابلاغ سے متعلق رپورٹ کی حمایت کی جاسکتی ہے‘ اب تک نہ ہی امریکہ اور نہ ہی جنوبی کوریائی حکومت نے اس بات کی تصدیق یا انکار کیاہے۔امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے جمعرات کو برلن میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا ''ہمیں اطلاعات ملی ہیں‘ہم اسے چیک کرنے کے لئے اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں‘میرے پاس اس حوالے سے کوئی اور نئی خبر نہیں ہے‘‘۔
شمالی کوریا نے 2017ء میں ملائیشیا کے ہوائی اڈے پر ایک ایجنٹ کو قتل کیا تھا۔حکومت کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے‘ بعض ماہرین نے امید ظاہر کی ہے کہ ہنوئی میں مذاکرات کے خاتمے میں ملوث افسران کو کسی طرح سے سزا دی جاسکتی ہے‘ چاہے وہ دھوکہ یا عدم توجہ یا پھر ناکام پالیسی بنانے کی سزا ہو۔کئی دیگر مغربی اخبارات نے بھی اس بات کو شہ سرخیوں میں لکھا کہ کم جونگ امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے بعد واضح طور پر خوش نہیں تھا۔تھنک ٹینک کے سٹریٹجک اور بین الاقوامی مطالعہ کے ایک مبصرسیو می ٹیری کے بقول؛ شمالی کوریا ایک خطرناک نظام رکھتا ہے‘ اس نظام میں کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے‘ جو دنیا کے لیے مناسب نہیں۔مزاج‘ چھوٹا ہوا‘سوچ محدود ہو‘وہ بین الاقوامی طور پرمعاملات کو کیسے سمجھ سکتا ہے‘وہ عالمی قوانین کی پروا بھی نہیں کرتا۔ان کا اشارہ شمالی کوریائی صدر کم جونگ کی طرف تھا۔بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ رپورٹ‘ اگر درست ہو تو شمالی کوریا کو امریکہ موثر رد عمل کے طور پر جواب ضرور دیتا۔جنوبی کوریا کے سفیروں اورشمالی کوریا کے اوپر امریکی حکام کے ریاستی سیکریٹری وسفیر سٹیفن بائین سے کئی بار اس معاملے پر سوالات کیے گئے‘ جس پر انہوں نے کوئی خاطر خواہ جواب نہ دیا۔
ان سب حالات کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ اب بھی کم جونگ سے بات کرنے کے لئے تیار ہیں؛اگر وہ نئے ہتھیار کے ٹیسٹ کی اہمیت کو کم کر دیں۔امریکی صدر نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ شمالی کوریا کو لے کرذاتی طور پر پریشان نہیں۔انہوں نے مزید کہا ہے کہ میرے لوگ سوچتے ہیں کہ خلاف ورزی ہوسکتی ہے‘مگرمیں مختلف طور پر دیکھتا ہوں۔ ٹرمپ نے پیر کے روز جاپان کے دورے کے دوران کہا کہ میں کم جونگ کو ایک انسان کے طور پر دیکھتا ہوں‘ شاید وہ توجہ دینا چاہے یا شاید نہیں‘وہ اس کا معاملہ ہے۔

 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں