"NNC" (space) message & send to 7575

فیصلے کی گھڑی آن پہنچی

امریکی ایوان نمائندگان کی سپیکر نینسی پلوسی نے گزشتہ دنوں ایک غیرملکی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ '' واشنگٹن ‘ ایران کے ساتھ کسی بھی ایسی ممکنہ جنگ یا کشیدگی میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا‘ جو کسی غلطی اور سخت رد عمل کا باعث بنے۔امریکی ایوان ِنمائندگان کی سپیکر نے یہ بھی کہا کہ '' امریکی صدر ٹرمپ نے غیر منطقی طور پر سفارتی آداب کے خلاف ‘جوہری معاہدے سے علیحدگی اختیار کی ؛حالانکہ امریکہ کی قومی سلامتی کے ماہرین نے جوہری معاہدے کی تائید و حمایت کی تھی‘‘۔واضح رہے کہ امریکہ کی جانب سے 8 مئی 2018ء کو جوہری معاہدے سے علیحدگی اختیار کرنے اور جوہری معاہدے کے دیگر رکن ممالک کی جانب سے اپنے وعدوں پر عمل نہ کرنے کے بعد ایران نے 8 مئی 2019ء کو اس معاہدے کی شق نمبر 26 اور 36 کے تحت اپنے وعدوں میں کمی لانے کا فیصلہ اور اعلان کیا تھا۔
دوسری جانب ترکی کی سرکاری نیوز ایجنسی اناتولی نے دعویٰ کیا ہے کہ ترکی کے صدررجب طیب اردوان نے باہمی تعاون اور اعتمادسازی کی تنظیم (CICA) کے پانچویں سربراہی اجلاس میں شرکت کے بعد ٹوئٹ کیا ہے کہ امریکہ کی یک طرفہ پابندیاں علاقائی امن اور استحکام کو درہم برہم کرتی رہتی ہیں ‘ ہم خطے میں امن و استحکام کے قیام کے لیے کسی بھی کوشش سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔یاد رہے کہ تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبہ میں باہمی تعاون اور اعتماد سازی کی تنظیم(CICA) کے پانچویں سربراہی اجلاس میں ایرانی صدرِ مملکت ڈاکٹر حسن روحانی نے بھی شرکت کی ۔
تاریخ شاہد ہے کہی عراق کے سابق صدر صدام حسین نے امریکہ کی دھمکیوں کو سنجیدگی سے نہیں لیا تھا۔ امریکا انہیں برابر دھمکی دے جا رہا تھا اورزیادہ تر زوراس بات پردیاجاتاکہ اگر انہوں نے کویت سے انخلا یقینی نہ بنایا تو امریکا ان کے خلاف تباہ کن جنگ چھیڑ دے گا۔ صدام حسین کو آخری دھمکی عراق پر فضائی حملے سے چند روز قبل سوئٹزرلینڈ میں عراقی وزیر خارجہ طارق عزیز اور امریکی وزیر خارجہ جیمس بیکر کی ملاقات میں دی گئی تھی۔ اس وقت کویت پر عراق کے قبضے کو 5 ماہ گزرچکے تھے ۔عراقی صدرنتائج سے بخوبی آگاہ بھی تھے۔اب ‘ایران کے حوالے سے بھی کئی مبصرین اسی طرز کی منظرکشی کر رہے ہیں۔ ایران کو بار باریہی باور کرایا جا رہاکہ اگر جنگ چھڑ گئی تو تباہ کن ہو گی۔ امریکا‘ اکثر یہ بات بھی دہراتا رہتا ہے کہ وہ ایران سے جنگ نہیں چاہتا‘ مگر عملی طور پر وہ ایران کو جنگ کی طرف دھکیل بھی رہا ہے۔ امریکی اقتصادی پابندیاں ایرانی نظام کو مخدوش کرتے ہوئے دکھائی دیتی ہیں۔قیاس آرائیاں جاری ہیںکہ ممکن ہے کہ کوئی گولی چلے بغیر ہی ایرانی نظام کا دھڑن تختہ ہو جائے۔یقینا ایران بھی امریکا سے جنگ نہیں چاہتا ‘اسے علم ہے کہ جنگ چھڑی تو تباہ کن ہو گی۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ جنگ کے امکان کونظرانداز بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ہماری سوچ کو تقویت امریکی فیصلوں سے بھی ملتی ہے ۔امریکا کے متعدد جنگی جہاز خلیج اور اردگرد کے سمندر میں پہنچ چکے ‘یہ کوئی معمولی کھیل نہیں ‘عمومی طورپر اس قسم کے اقدامات جنگ کی تیاری کیلئے ہی کیے جاتے ہیں۔ امریکا کی جانب سے ایران کے لیے سنجیدہ پیغام تصورکیا جارہا ہے۔کوئی شک نہیں‘امریکا بھیانک عسکری طاقت ہے‘ اس کی مثال بدمست ہاتھی جیسی ہے‘ جو اپنے قدموں تلے آنے والی گھاس کو بغیر دیکھے روند ڈالتا ہے۔نیا بدلتا ہوا منظرنامہ کئی خطرات کی نشاندھی کررہاہے۔ ایرانی نظام کو اسی طرزپرڈیل کیا جاسکتاہے‘ جیسے گزشتہ دو جنگوں میں صدام حسین کے ساتھ کیا گیا۔ایران کو وہی چوٹ لگ سکتی ہے‘ جو طالبان کو لگائی گئی۔ ایران نے خطے میں یاجغرافیائی طورپر اب تک جو اقدمات کیے‘ امریکہ ان باتوں کوجواز بناتے ہوئے براہ راست حملہ نہیں کرسکتا۔ماضی میں کسی بھی امریکی صدر نے کانگریس کی حمایت حاصل کر کے ایران کے خلاف جنگ نہیں چھیڑی‘ مگرالزام لگایاجاتا ہے کہ امریکا ایران اور اس کے مفادات کے خلاف خفیہ عسکری آپریشن کرتا رہا ہے‘ یہ کام سی آئی اے اور امریکی اتحادیوں کے ذریعے انجام دیا گیا۔ ایران کو اذیت ناک اقتصادی بائیکاٹ کا بھی سامنا ہے۔ایران کے خلاف جوابی آپریشن نہ کرنے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ امریکا کو اس امید میںرہا کہ ایران اپنی سیاست تبدیل کر لے ‘ اس کا اتحادی بن جائے اور اس طرح ایران امریکہ کے بڑے حریفوں روس اور چین کے حق میں نہ بیٹھے۔ممکن ہے کہ روس یا چین ایران کو حکمراں نظام برقرار رکھنے کیلئے تحفظ فراہم کریں۔
الغرض مو جودہ صورتحال شطرنج کی بساط پر کھیلے جانے والے کھیل کا منظرپیش کیے ہوئے ہے۔ بشار الاسد کے نظام حکومت کے حوالے سے روس مداخلت کر کے اس کی مثال پہلے پیش کیے ہوئے ہے۔ بشار الاسد کی حکومت کا دھڑن تختہ ہونے کے قریب تھا۔ روس نے سہارا دے کر اسے بچا یا۔ روس وہی کھیل وینزویلا میں میڈورڈ نظام کے ساتھ بھی کھیل رہاہے‘مگرایران کا نظام مختلف ہے۔ عوام مذہبی‘ انقلابی رو کو پسندکرتے ہیں۔ امریکا اس کی اصلاح کے لیے ڈرانے دھمکانے اور سمجھانے کے لئے جتنی تدابیر استعمال کر سکتا تھا ‘کر چکا ‘ اورامریکا کے سارے وسائل ناکام ہو چکے ہیں۔
مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ جیسے اب فیصلے کی گھڑی آ ن پہنچی ہے ۔ عراق میں صدام‘ لیبیا میں قذافی اور سوڈان میں عمر البشیر جیسے حکمرانوں سے چھٹکارا حاصل کر لیا گیا۔ شام میں بشار الاسد کی حکومت کوبھی کمزور کر دیا گیا ‘تاہم ایران کے حوالے سے کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔

 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں