وزیراعظم مودی کے مسلمانوں کے خلاف عزائم ڈھکے چھپے نہیں۔اب وہ پھر سے اقتدار پر براجمان ہو گئے ہیں۔ جو کچھ مودی گزشتہ پانچ برسوں میں نہیں کر سکے ‘ اب اسے کرنے کی ہر ممکنہ کوشش کریں گے ‘ جیسا کہ مسئلہ کشمیر۔گزشتہ دنوں لائن آف کنٹرول سے چند کلو میٹر دورچھمب سیکٹر میں دھماکے سے پاک فوج کے پانچ فوجی شہید ہو گئے ۔ان میںصوبیدار محمد صادق‘ سپاہی محمد زوہیب‘ طیب‘ غلام قاسم اور نائیک شیر زمان شامل ہیں۔آئی ایس پی آر کے جاری کردہ بیان کے مطابق ''دہشت گردی کی اس کارروائی میں بھارت ملوث ہے‘‘۔بھارت کی طرف سے اس طرح کی اشتعال انگیزیوں کا مقصد کشمیر پر اپنے غاصبانہ قبضہ کرنے کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے؟ لیکن پاک فوج ہر وقت دشمن کے عزائم خاک میں ملانے کے لئے تیار ہے۔مودی سرکار سے اچھے کی توقع رکھنا دیوانے کے خواب کے سوا کچھ بھی نہیں۔مسئلہ کشمیر ہے کیا؟ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ تاریخ کے طالب علموں کے لئے مختصراً بیان کر دیتا ہوں۔تقسیم ہند کے دوران جموں و کشمیر‘ برطانوی راج کے زیر تسلط ایک ریاست تھی‘ جس کی آبادی 95 فیصد مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ جب ہندوستان کو تقسیم کیا جا رہا تھا تو یہ فارمولا طے پایا کہ جن علاقوں میں مسلم اکثریت ہو گی‘وہ علاقے پاکستان میں شامل ہو جائیں گے اور جہاں ہندو اکثریت میں ہوں گے وہ علاقے بھارت میں شامل ہوںگے ۔ کشمیر میں اکثریتی آبادی تو مسلمانوں کی تھی لیکن یہاں کا حکمران ایک سکھ تھا اور وہ سکھ حکمران‘ بھارت کے ساتھ الحاق چاہتا تھا‘ لیکن تحریک پاکستان کے رہنماؤں نے اس بات کو یکسر مسترد کیا اورکہا کہ کشمیر میں مسلمان اکثریت میں آباد ہیں لہٰذایہ پاکستان کا حصہ ہے ۔یہ ہے وہ بنیادی نقطہ جس پر کشمیر کے نہتے اور لاچار مسلمان اپنی جدو جہد آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیںاور وہ وقت زیادہ دور نہیں رہ گیا جب کشمیری مسلمانوں کی یہ جدو جہد رنگ لائے گی۔
دوسری طرف مودی کے حواریوں نے ایک بار پھر ماب لنچنگ کی وارداتوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ حال ہی میں جھاڑکھنڈ ریاست کے سرائے کیلا میں تبریز انصاری پر بہیمانہ تشدد کر کے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ اس واقعہ کے بعد بہار‘ بنگال‘ جھاڑ کھنڈ سمیت پورے ملک میں احتجاج کی صدائیں بلند ہوئیں ۔ کسی نے بھی اس طرح کی واردات کو مہذب سماج کے لئے اچھا شگون قرارنہیں دیا۔ مختلف سیاسی وسماجی تنظیموں نے اس طرح کی واردات پر سخت احتجاج کا اظہار کیا۔چاہے ان تنظیموں کا تعلق کسی بھی مذہب سے کیوں نہ ہو۔ ہر مذہب میں بے قصور لوگوں کا قتل کسی بھی حال میں جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔بھارتیہ جنتا پارٹی کے پہلے دورِ اقتدار میں اخلاق احمد صرف اس لئے قتل کر دیا گیا کہ کچھ شر پسندوں نے افوا ہ پھیلائی تھی کہ ان کے گھر میں گائے کا گوشت پکایا گیاہے‘اس کے بعد اس طرح کا سلسلہ چل پڑا اور گئو رکھشا کے نام پر پورے ملک میں جگہ جگہ غنڈہ گردی شروع ہو گئی۔ سینکڑوں نہتے مسلمانوںکو گھیر کر مار دیا گیا۔سب سے زیادہ وارداتیں جھاڑ کھنڈ میں پیش آئیں‘ جہاں بی جے پی اور اس کے حواریوں کی حکومت ہے اور ہندو توا کا پرچار ڈنکے کی چو ٹ پر کر رہے ہیں۔چند روز قبل اسی طرح کی ایک واردات علی گڑھ میں بھی ہو چکی ہے۔ وہاں بریلی میں پڑھنے والے طالب علم کے ساتھ کچھ شر پسندوں نے بد سلوکی کی اور مذہبی نعرے لگا کر طالب علم مجیب الرحمن عرف فرمان کو چلتی ٹرین سے نیچے پھینک دیا۔ اس معاملے پربھارتیہ جنتا پارٹی کے کسی ایک لیڈر نے بھی مذمت نہیں کی حالانکہ مودی پہلے کبھی کبھار مذمتی بیان جاری کر دیا کرتے تھے لیکن اب کی بار انہیں جیسے سانپ ہی سونگھ گیا ہو۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو گئو رکھشاکے نام پر قتل کرنے کا سلسلہ کب تھمے گا؟ مسلمان کب تک ہندوئوں کے غیظ و غضب کا نشانہ بنتے رہیں گے؟آخر وہ کون سے لوگ ہیں جو قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر بد نظمی اور فرقہ وارانہ خطوط پر سماج میں نفرت پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں؟ حال ہی میں پہلو خان پر ظلم و تشدد کے بعد ان کے رشتہ داروں پر چارج شیٹ داخل کر دی گئی جبکہ پہلو خان کومارنے والوں کے خلاف کوئی مؤثر کارروائی عمل میں نہ لائی گئی۔ اس معاملے پر مولانا آزاد یونیورسٹی کے وائس چانسلرنے سخت ردعمل کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ'' راجستھان پولیس کی جانب سے پہلو خان اور ان کے دو بیٹوں کے خلاف فردِجرم عائد کر دی گئی ہے۔ اس طرح کی واردات جہاں زخموں پر نمک چھڑکتی ہے وہیں حکومت کے خلاف نفرت بھی پیدا کرتی ہے‘‘۔ دنیا اس بات کی گواہ ہے کہ جب نہتے اوربے قصوروں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی گئی ‘ انہیں قتل و غارت گری کا نشانہ بنایا گیا‘ سماج میں بے چینی اور اضطراب میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔وزیراعظم نریندر مودی اب فرنٹ فٹ پر آکر کھیل رہے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے۔