پاکستان اور برطانیہ کو قریب تر لانے میں پاکستانی برطانوی پارلیمنٹیرینز کا کلیدی کردار ہے۔اس بات کا اظہار پاکستانی وزراء کئی بار کر چکے۔ برطانوی پارلیمنٹ کے پاکستانی اراکین نے منگل کے روز18 جون کووزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے پاکستانی ہائی کمیشن لندن میں ملاقات کی۔ واضح رہے کہ اقتصادی‘ ثقافتی ترویج و مسئلہ کشمیر سمیت اہم قومی مفاد سے متعلقہ امور میں پاکستانی برطانوی پارلیمنٹیرینز کی معاونت ہمیشہ سے رہی ہے۔اس سے قبل برطانوی پارلیمنٹ میں مسئلہ کشمیر پر کئی بار بحث ہوچکی۔رواں عشرے میںبریڈ فورڈ کے پانچوں ممبران ِ پارلیمنٹ نے مسئلہ کشمیر پر برطانوی پارلیمنٹ میں بحث کی حمایت کرتے ہوئے اس میں حصہ لیا‘ جبکہ نوٹنگھم ‘ بری ‘ مانچسٹر ‘ برمنگھم ‘ لندن ‘ لیوٹن اور شفیلڈ کے متعدد ممبران ِپارلیمنٹ بحث کے محرک ڈیوڈ وارڈ ایم پی اور تحریک ِ حق ِخود ارادیت یورپ کے اعلیٰ عہدے داروں نے بحث میں شرکت کو یقینی بناچکے۔ اپنے وطن کی آزادی اور اس کے عوام کے حقوق کے لیے کشمیری اور پاکستانی ہر محاذ پر پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتوں کی لابی کو جار ی رکھنے پر اتفاق قائم کیے ہوئے ہیں۔ایسا یقینا پہلی بار نہیں ہورہا ۔کشمیر پر غاصبانہ قبضے کے ادوار سے کشمیری نا صرف لوکل سطح پر‘ بلکہ عالمی سطح پر اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ شیڈو وزیر خارجہ ‘ ممبران ِپارلیمنٹ اور میڈیا کے نمائندوں کو کشمیریوں کے نقطۂ نظر پر کئی باربریفنگ دی ‘ جس سے مقبوضہ کشمیر کے بیرونِ ملک حقیقی نمائندوں نے خطاب کیا اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم سے آگاہ کیاگیا۔
دوسری جانب بھارت ‘کشمیر کو ہاتھ سے نکلتا ہوا دیکھ کر تذبذب کا شکار ہے اورکشمیر پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کے لیے طرح طرح کے حربے استعمال کر رہا ہے ۔جمہوریت کا سب سے بڑا دعوے دار بھارت کئی عشرے گز رجانے کے باوجود اقوام متحدہ کے کیے گئے فیصلوں پر عمل درآمد کرانے کو تیار نہیں ۔بھارت میںالیکشن کے بعد نئی مودی سرکارکشمیر کے حوالے سے نئی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ہوسکتا ہے کہ بھارتی پارلیمنٹ( لوک سبھا) میں مسئلہ کشمیر کو زیربحث لا کر کشمیری عوام اکثریت کے خلاف قرار داد پاس کروا تے ہوئے‘ اس مسئلے کو عالمی سطح پر دوبارہ اجاگر کرے ‘کیونکہ مودی سرکار لوک سبھا میں اکثریت حاصل کر چکی ہے۔اس کے علاوہ کشمیر کے کاز پر‘اپوزیشن جماعتیں بھی ان کے ساتھ کھڑی ہو سکتی ہیں۔یوں دنیا میں ایک نئی بحث چھڑنے کا امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے۔ادھرپاک بھارت سرحد پرآئے روز ہونے والے واقعات ان اقدامات کی کڑی ہو سکتے ہیں‘جبکہ پاکستان نے ہمیشہ امن کی ہی بات کی ہے اور اپنے دفاع کو یقینی بنایاہے۔یہاں تک کہ ہمارے سپہ سالار نے رواں ماہ بیان بھی دیا کہ امن کی حالت میں ہمیشہ خطے ترقی کرتے ہیں۔حقیقت بھی یہی ہے‘ہمیں تمام مسائل پر مذاکرات کے ذریعے بات کرنی چاہیے‘ تاکہ 70سال سے جو دو اقوام پس رہی ہیں‘ ان کا کوئی حل تلاش کیا جا سکے۔
کٹھ پتلی کشمیری قیادت کو بھی یہ سوچنا چاہیے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ بھارت ‘ریاست سے اپنی افواج نکال لے اور کشمیرکو کشمیری عوام کے حوالے کردے۔ ستر سال کا عرصہ گزرنے کے بعد حالات بہت بدل چکے۔ مسئلہ کشمیر کے فریقین کو جذباتی اور قومی انا کی فضا سے باہر نکل کر حقیقت پسندانہ ‘ جرأت مندانہ فیصلے کرنا ہوں گے ‘تاکہ جموں کشمیر کے عوام سکھ کے ساتھ جی سکیں اور اس کا فائدہ پاک بھارت کے عوام کو بھی پہنچے ‘ جن کی بہت بڑی تعداد غربت اور زندگی کی بنیادی سہولتوں کو ترس رہی ہے۔ مسئلہ کشمیر کے حل ہونے سے پاکستان اور بھارت کے دفاعی اخراجات میں بہت زیادہ کمی واقع ہوگی‘ وہ رقم دونوں ممالک کے عوام کی فلاح و بہبود اور خوشحالی پر خرچ ہوسکے گی۔ کشمیریوں سے کہیں زیادہ پاکستان اور بھارت کے عوام کو امن کی ضرورت ہے ۔ اگر‘ برصغیر میں امن قائم ہوگیا تو یہ علاقہ دنیا کا خوشحال ترین خطہ بن سکے گا۔ دونوں ممالک کو آپس میں لڑنے کی بجائے باہمی تعاون کی ضرور ت ہے۔ جو تعلیم‘ صحت‘ تجارت‘ ثقافت‘ زراعت‘ صنعت و حرفت اور دوسرے کئی شعبہ جات میں کیا جاسکتا ہے۔ اس سنہرے دور میں؛ اگر مسئلہ کشمیر رکاوٹ ہے تو اسے دور کرنے کی کوشش کرنا ہوگی۔
ٹرسٹی شپ کونسل اقوام متحدہ کے چھ مرکزی اداروں میں سے ایک ہے‘ جو آرٹیکل 75 اور 76 کے تحت کام کرتی ہے۔ اقوام متحدہ کے قوانین کے مطابق؛ کسی بھی متنازع علاقہ کے لئے ٹرسٹی شپ کونسل تشکیل دی جاسکتی ہے۔ اقوام متحدہ کے قیام سے اب تک گیارہ ممالک یو این ٹرسٹی شپ میں رہے ہیں‘ جن میں ناؤرو ‘گھانا ‘ ٹوگو لینڈ‘مغربی سامووا‘ ٹینگا نیکا‘ راوانڈا ارونڈی‘ برطانوی کیمرون‘ فرانسیسی کیمرون‘ نیو گنی‘ بحرالکاہل جزائر اعتمادی علاقہ‘ اطالوی صومالی لینڈ شامل ہیں۔اقوام متحدہ کے تحت بارہویں ٹرسٹی شپ ریاست جموں کشمیر کے لئے کیوں نہیں ہوسکتی؟ پاکستان ماضی میں ایسی تجاویز ‘جنوری 1951ء میں دولت مشترکہ کانفرنس اور 1965ء میں پیش کرچکا ‘جبکہ حالیہ دنوں میں پاکستان کی وفاقی وزیر شیریں مزاری نے مشرقی تیمورکے طرز کی تجویز پیش کی ہے۔
اب‘ بھارت کو بھی چاہیے کہ جرأت مندانہ فیصلے کرے اور آگے بڑھے۔ بھارت کو وزیراعظم پاکستان عمران خان کی دوستی کی پیشکش کا مثبت جواب دیتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے حل کی تجویز پیش کرنی چاہیے اور آنے والے نسلوں کو جنگوں کی تباہی کے خطرات کی بجائے پرُ امن اور خوشحال مستقبل کی نوید دینی چاہیے۔