آج دنیا کی آباد ی چھ ارب سے زائد انسانوں پر مشتمل ہے۔ سب انسان ایک ہی مشترکہ ذخیرے سے ماخوذ ہیں اور ایک ہی نوع کے ارکان ہیں‘ یعنی باشعور آدمی موجودہ نسلوں کا مآخذ ماقبل انسانی دور میں نہیں جاتا‘ بلکہ دور شروع ہونے کے بعد نسلوں کا افتراق شروع ہوتا ہے۔ ماضی میںبھی انسان کے علاقائی فرقوں کو نسلوں میں تقسیم کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ توارثیائی خصوصیات کو بناپر ان کو تقسیم کیا گیا‘ جن میں جلد کی رنگت ‘ بناوٹ کے علاوہ شخصی صفات اور نفسیاتی ساخت کو بھی شامل کیا گیا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر ڈیموکریٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والی خواتین کے حوالے سے ٹویٹس کرنے پر ایک مرتبہ پھر نسل پرستی کا الزام لگایا جارہا ہے‘یہ کوئی نئی بات بھی نہیں۔امریکی صدر نے اپنی ٹوئٹ میں ان خواتین کو 'واپس جانے‘ کا مشورہ دینے سے قبل کہاکہ یہ خواتین‘ دراصل ان ممالک سے آئیں ہیں ‘جن کی حکومتیں مکمل طور پر تباہ حالی کا شکار ہیں۔‘تنقید کے نشتر برساتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سپیکر نینسی پیلوسی (ان سیاہ فام خواتین کے لیے) جلد از جلد مفت سفری انتظامات کر کے بہت خوش ہوں گی۔صدر ٹرمپ کی ٹویٹ رواںہفتے نینسی پلوسی کی ڈیموکریٹ پارٹی کی سیاہ فام نسلوں سے تعلق رکھنے والی چار خواتین ارکانِ پارلیمنٹ سے جھڑپ کے بعد سامنے آئی‘جبکہ دوسری جانب سپیکر پارلیمنٹ نینسی پلوسی نے صدر ٹرمپ کی ٹویٹ کا حوالے دیتے ہوئے انہیں غیر ملکیوں سے نفرت پر مبنی‘ قرار دیا ۔سپیکر نے کہا کہ جب امریکی صدر چار خواتین ارکان کانگریس کو اپنے ملک واپس جانے کا کہتے ہیں تو وہ اشارہ کر رہے ہوتے ہیں کہ امریکہ کو ایک مرتبہ پھر عظیم بنانے‘ کا ان کا منصوبہ امریکہ کو دوبارہ سفید فاموں کا ملک بنانے کا ہے۔نینسی پلوسی نے اس بات پر زوردیاکہ ہمارا تنوع ہی ہماری طاقت ہے اور ہمارا اتحاد ہی ہماری قوت ہے۔
سیاہ فام امریکیوں کی تاریخ دراصل شمالی امریکہ کی اسلامی تاریخ سے مماثلت رکھتی ہے ۔ امریکہ میں افریقیوں کی آمد کا آغاز 1619ء میں ہوا‘ جب افریقہ کے ساحلوں سے لاکھوں کی تعداد میں افریقیوں کو پکڑ کر لایا گیا۔ بیشترتاریخ دانوںکا کہنا ہے کہ سیاہ فام غلاموں کی امریکہ آمد کا سلسلہ 1555ء میں شروع ہوا‘ جب سیرالیون سے پکڑے ہوئے غلام امریکہ میں فروخت کئے گئے۔ افریقہ کے ساحلوں سے پکڑے جانے والے غلام ''غلوں‘‘ کی طرز پر ہالینڈ کی بندرگاہوں پر پہنچائے جاتے‘ جہاں سے بحر اوقیانوس کے راستے انہیں امریکہ لایا جاتا‘ یہی وجہ ہے یہ گھنائونا کاروبار Atlantic Slave Trade کہلاتا تھا۔ افریقہ سے براہ راست امریکہ آنے والا غلاموں سے بھرا ہوا پہلا جہاز 1619ء میں ورجینیا میں لنگر انداز ہوا۔ اس کے بعد سے ''افریقیوں کا شکار‘‘ ایک قومی کھیل بن کے رہ گیا۔ غلاموں کی تجارت اور دیگر ظالم بادشاہوں کے ہاتھوں مفتوحہ آبادیوں کو غلام بنانے کی مثالیں موجود ہیں‘ مگر یہاں طریقہ وارادت بالکل ہی انوکھا تھا‘ جہاز ساحل پر لنگر انداز ہوتے ‘ہتی بستیوں کو منہ اندھیرے گھیر کر عورتوں‘ بچوں سمیت سارے لوگ ہانک کر جہاز پر لاد دیئے جاتے۔
1898ء تک ایک کروڑ افریقی غلام بنا کر امر یکہ لائے گئے۔ سفر کے دوران تشدد‘ بیماری اور دم گھٹنے سے 20 لاکھ سے زیادہ غلام ہلاک ہوئے‘ جبکہ بحث ومباحثہ یا مزاحمت کرنے والے بہت سے سرکش غلاموں کو پیروں میں وزن باندھ کر سمندر میں پھینک دیاجاتا۔ زیادہ تر غلام بحر احمر‘ افریقہ کے مغربی اور وسطی ساحلوں سے پکڑے گئے۔ ان غلاموں کی نصف تعداد نائیجیریا کے علاقے بیافرا‘ گبون اور سیرالیون کے باشندوں پر مشتمل تھی۔ اس کے علاوہ سینیگال‘ لائیبیریا‘ کانگو اور گھانا کے لوگ بھی پکڑے گئے۔ بحر احمر سے آنے والے قزاقوں نے سوڈانیوں اور حبشیوں کا شکار کیا۔ پکڑے جانے والے افریقی غلاموں کی ایک تہائی تعداد مسلمانوں پر مشتمل تھی‘ تاہم شمالی امریکہ میں اسلام کولمبس کے آنے سے پہلے ہی پہنچ چکا تھا اور قدیم انڈین قبائل میں بھی مسلمان موجود تھے۔
ان غلاموں کی فروخت کیلئے ورجینیا‘ شمالی کیرولینا‘ جنوبی کیرولینا اور جارجیا میں غلاموں کی منڈیاں قائم کی گئیں۔ اس وقت امریکہ بحر اوقیانوس کے ساحل پر واقع ان 13 کالونیوں پر مشتمل تھا‘ جنہوں نے برطانیہ سے آزادی کا اعلان کیا تھا۔ 1776ء میں انہی 13 کالونیوں نے ریاستوں کی شکل اختیار کرکے امریکہ یا ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی شکل اختیار کی۔ امریکہ کے پرچم پر 13 سرخ و سفید پٹیاں انہی ابتدائی ریاستوں کو ظاہر کرتی ہیں۔ 1625ء میں ان کالونیوں کی مجموعی آبادی 1980 نفوس پر مشتمل تھی‘ جبکہ 1660ء تک غلاموں کی تعداد 2000 سے زیادہ ہوگئی‘ یعنی عددی اعتبار سے غلام مالکوں سے زیادہ تھے‘ جنہیں قابو میں رکھنے کیلئے بدترین ہتھکنڈے اور ظلم کے ضابطے وضع کئے گئے۔ سرکشی کی فوری سزا پھانسی تھی اور یہ سزا اس شدت و کثرت سے دی جاتی تھی کہ پھندے کی تیاری کیلئے رسی کی فروخت ایک نفع بخش کاروبار بن گیا۔ جلادی کا کام ''مجرم‘‘ کے خونی رشتے دار سے لیا جاتا‘ یعنی بھائی اپنے بھائی کو یا باپ اپنے بیٹے کو پھندہ لگاتا۔ اس دور میں get the rope یعنی (پھانسی کیلئے) رسی لائو دھمکی کا استعارہ تھا‘ جو اب بھی یہاں ضرب المثل ہے۔
سیاہ فاموں نے پہلی جدوجہد غلامی کو ختم کرنے کے لیے کی۔امریکی صدر ابراہم لنکن نے غلامی کے خاتمے کی جدوجہد میں ان کا ساتھ دیا‘ امریکا میں خانہ جنگی شروع ہو ئی‘ غلامی تو ختم ہو گئی لیکن ابراہم لنکن کے دشمنوں نے انہیں قتل کر دیا‘لیکن سیاہ فاموں کو ووٹ کا حق حاصل کرنے میں مزید سو سال لگے۔یکم دسمبر 1955ء کو ایک سیاہ فام خاتون روزا پارکس بس میں سوار ہوئی اور ایک سفید فام کے لیے اپنی نشست چھوڑنے سے انکار کر دیا‘ انہیں حراست میں لے لیا گیا‘ جس کے خلاف سیاہ فاموں نے ملک بھر میں مظاہرے شروع کر دیے۔آخر امریکی عدالت نے فیصلہ دیا کہ بسوں میں سیاہ فام باشندوں کے ساتھ امتیازی سلوک روانہ رکھاجائے۔سیاہ فاموں کو اپنا اگلا عظیم رہنما مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کی صورت میں ملا‘ جس نے دنیا بھر میں انسانی مساوات کے لیے لڑنے والوں میں نئی روح پھونک دی۔مارٹن لوتھر کنگ کی جدوجہد کے نتیجے میں امریکی سیاہ فاموں کو ووٹ ڈالنے کا حق بھی ملا‘ اس جدوجہد میں مارٹن لوتھر کنگ کو اپنے خون کا نذرانہ بھی دینا پڑا۔چار عشروں کے بعد چشم فلک نے وہ نظارہ بھی دیکھا‘ جب ایک سیاہ فام امریکی نے صدارت کا انتخاب جیتا اور براک حسین اوبامہ کے نام سے امریکا کی صدارت پر فائز ہوا‘ امریکی سیاہ فاموں کی یہ جدوجہد پوری دنیا کی لسانی‘ نسلی اور مذہبی اقلیتوں کے لیے ایک مثال ہے۔