وزیراعظم پاکستان عمران خان تین روزہ سرکاری دورے پرکمرشل فلائٹ کے ذریعے براستہ قطر امریکا پہنچے‘ جہاں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سمیت دیگر امریکی عہدے داروں سے ملاقاتیں شیڈول تھیں۔حکومت کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق؛ واشنگٹن پہنچنے پر وزیر اعظم کا استقبال امریکی دفتر خارجہ کے سینئر اہلکاروں‘ پاکستانی وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی اور امریکا میں پاکستان کے سفیر ڈاکٹر اسد خان نے کیا۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ22جولائی پیر کے روزکے وائٹ ہاؤس میں ایک ملاقات ہوئی ۔اگلے ہی روزامریکی و غیر ملکی میڈیامیں پاکستانی وزیراعظم ‘ وفد کی ملاقات اوربدلتے ہوئے امریکی رویے کو خوش آئند قرار دیا‘ اورعالمی سطح پر نئی بحث چھڑ گئی ۔یقینا یہ عرصہ دراز کے بعد کسی پاکستانی سربراہ کا امریکی دورہ تھا‘جس نے پاک امریکا تعلقات میں نئی روح پھونک دی ہے۔ پاکستانی سربراہ حکومت کے ساتھ وائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں ایک ملاقات میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ اسلام آباد نے اپنے ہمسایہ ملک افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کو آگے بڑھانے کے لیے اب تک جو کردار ادا کیا ہے‘ وہ قابل ِتعریف ہے۔امریکی صدر کی جانب سے پاکستان کے لیے تعریف کے الفاظ ‘امریکہ افغان جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف ہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ افغانستان میں قیام امن کے لیے پاکستان نے بھاری قیمت چکائی ہے۔
غیر ملکی مبصرین ‘ صدر ٹرمپ کاپاکستان کے بارے میں موقف امریکا کے اب تک کے رویے میں ایک بڑی تبدیلی قراردے رہے ہیں۔ واشنگٹن کی پوری کوشش ہے کہ وہ افغانستان میں گزشتہ قریب اٹھارہ برسوں سے جاری جنگ کے خاتمے کو یقینی بنائے‘ طالبان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر کسی ایسے حل کی تلاش کرے ‘جو اس خطے میںدیرپا امن کی وجہ بن سکے۔ اوول آفس میں ہونے والی ملاقات میںصدر ٹرمپ نے کہا ''افغانستان میں قیام امن کے سلسلے میں گزشتہ چند ہفتوں میں بہت زیادہ پیش رفت ہوئی ہے اور اس عمل میں پاکستان نے بھی امریکا کی بھرپور مدد کی ہے۔‘‘ صدر ٹرمپ نے پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کی طرف دیکھتے ہوئے اور ان سے مخاطب ہو کر کہا ''امریکا کے لیے بہت سی اہم چیزیں رونما ہو رہی ہیں اور میری رائے میں آپ کی قیادت میں پاکستان کے لیے بھی آنے والے دنوں اور ہفتوں میں کئی طرح کی مثبت پیش رفت ہونے والی ہے۔‘‘
21 جولائی کو وزیراعظم کی عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے قائم مقام ایم ڈی‘ عالمی بینک کے صدر اور کاروباری شخصیات سے ملاقاتیں ہوئیں۔اس کے علاوہ وزیراعظم واشنگٹن کے معروف کیپیٹل ون ایرینا میں پاکستانی کمیونٹی سے خطاب اور پاکستان بزنس سمٹ میں شرکت دورے کے حوالے سے اہمیت رکھتی ہے ۔پاکستان کی جانب سے گزشتہ روز جاری ہونے والے اعلامیے میں کہا گیا کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان جامع بات چیت ہوئی ‘جس کا مرکز پاکستان اور امریکا کے درمیان وسیع تر اور پائیدار شراکت داری کا قیام‘ جنوبی ایشیاء میں امن‘ استحکام اور خوشحالی کے لیے تعاون مضبوط تر بنانا ہے۔اس سے قبل واشنگٹن میں پاکستانی اور امریکی حکام کے درمیان ملاقاتوں کے بعد پیر کی شب پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہاکہ '' فریقین کے درمیان تین نشستوں پر محیط بات چیت میں دو طرفہ تعلقات‘ تجارت‘ افغان امن اور کشمیر کے مسئلے پر بڑی اچھی اور کھل کر بات ہوئی‘‘۔شاہ محمود کا کہنا ہے کہ ''امریکہ سے بات چیت میں ہمارا مقصد یہی ہے کہ ہم پاکستان کا نقطہ نظر پیش کریں‘‘۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر پر کردار ادا کرنے کی پیشکش بھی کی ‘ جس پر بھارت سمیت غیر ملکی میڈیا میںگرما گرم بحث چھڑ گئی۔امریکی صدر کی جانب سے کہا گیاہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی ان سے اس معاملے کو حل کرانے کی درخواست کی ہے‘تاہم جہاں پاکستان کی جانب سے اس پیشکش کا خیر مقدم کیا گیا‘ وہیں بھارت نے روایتی بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ‘اس مسئلے کے حل میں کسی تیسرے فریق کو شامل کرنے کے امکان کو رد کر دیا۔انڈین وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے صدر ٹرمپ کی کشمیر کے تنازعے پر پاکستان اوربھارت کے درمیان ثالثی کی پیشکش پر ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے ایسی کوئی درخواست نہیں کی گئی‘ اور نہ کبھی کہا گیاکہ امریکا ‘مسئلہ کشمیر پر ثالثی کا کردار ادا کرے۔ بھارت نے اپنی پرانی روش کو برقرار رکھتے ہوئے پاکستان پر بے بنیاد الزامات لگاتے ہوئے کہا کہ اس معاملے پر بھارت کی مستقل پوزیشن یہی رہی ہے ‘پاکستان سے مذاکرات اسی وقت ممکن ہوں گے ‘جب وہ سرحد پار ہونے والی دہشت گردی ختم کرے‘ تاہم امریکی صدر کے بیان کے بعد بھارت میں نئی بحث چھڑ چکی ہے۔بھارت سے تعلق رکھنے والے سیاسی مشیر گورو پانڈھی نے لکھا ہے کہ وزیراعظم مودی کو پارلیمنٹ میں آ کر وضاحت دینا ہو گی‘ اور یہ کہ وزارت داخلہ کی جانب سے صرف ایک ٹوئٹ کافی نہیں۔ انہوں نے یہ بھی لکھا کہ اگر امریکی صدر نے جھوٹ بولا ہے تو بی جے پی حکومت بتائے کہ وہ کس طرح انہیں جواب دینے کا ارادہ رکھتی ہے؟
ٹرمپ اور عمران خان کی ملاقات کے بعد دونوں رہنماؤں کے صحافیوں کے سامنے بیانات سے واضح ہو گیا ہے کہ اتنے مثبت الفاظ اور دوطرفہ مسکراہٹوں کے تبادلے نے ثابت کیا کہ موجودہ ریپبلکن امریکی صدر ٹرمپ کی پاکستان کے بارے میں سوچ کافی بدل چکی ؛ حالانکہ یہی صدر ٹرمپ وہ امریکی لیڈر تھے‘ جنہوں نے پاکستان پر گزشتہ برس عدم تعاون اور دھوکا دہی کا الزام لگاتے ہوئے اسلام آباد کے لیے ترقیاتی اور عسکری شعبوں میں سینکڑوں ملین ڈالر کی امریکی امداد روک دی تھی۔
امید کی جا رہی ہے کہ پاکستانی وزیراعظم کے دورے سے پاک امریکہ تعلقات میں بہتری آئے گی ‘اوردونوں کے تعلقات میں پیدا ہونے والا خلاء پُرہو جائے گا۔