ریچارج کے قابل بیٹریوں میں ذخیرۂ توانائی کا استعمال کرتے ہوئے1880 ء میں پہلی عملی برقی کاریں تیار کی گئیں۔19ویں صدی کے آخر میں اور 20 ویں صدی کے آغاز میں بجلی کی کاریں مقبول تھیں‘ اندرونی دہن انجن‘ خاص طور پر بجلی کے آغاز میں کم پیداوار‘ سستا گیسولین ہونے کی وجہ سے گاڑیوں کی بڑے پیمانے پر پیداوارمیں کمی دیکھنے کو ملی ـــ۔ـ2008ء سے ہوا کی آلودگی کی وجہ سے بیماریوں اور اموات میں اضافہ سامنے آیا‘ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کی خواہش میں پیش رفت ہوئی‘ برقی گاڑی کے مینوفیکچررز میںاضافہ ہوا۔ کئی قومی اور مقامی حکومتوں نے پلگ ان میں الیکٹرک گاڑیوںکے لئے حکومتی مواقع فراہم کیے۔نئی برقی گاڑیوں کے بڑے پیمانے پر مارکیٹ میں تعارف کرایا گیا اور انہیں اپنایا گیا۔ان کے فروغ دینے کے لئے ٹیکس کریڈٹ‘ سبسڈی دی گئی ۔ دیگر تشویشات‘ اکثر بیٹری سائز‘ ان کی برقی رینج اور خریداری پر خاص توجہ دی گئی ـ۔امریکی حکومت کی جانب سے اجازت کے بعدموجودہ زیادہ سے زیادہ ٹیکس کریڈٹ فی کار 75000 امریکی ڈالر ہے۔اندرونی دہن انجن کاروں کے مقابلے میں‘ الیکٹرک کاریں خاموش ہیں‘پائپ کے ذریعے کوئی اخراج نہیں ہے‘ اورباقیوں کی نسبت کم خرچ بھی ہیں۔
مختلف گاڑیوں کو چارج کرنے کے لیے کئی چارج سٹیشن قائم کیے جا سکتے ہیں‘چارجنگ سٹیشنوں کو دونوںکمرشل اور عوامی علاقوں میں نصب کیا جا سکتا ہے۔ دو مرتبہ سب سے بہترین برقی کاریں‘ نسان لیف اور ٹیسلا ماڈل ایس‘ EPA درجہ بندی کے سلسلے میں بالترتیب 243 کلومیٹر (151 میل) اور 600 کلومیٹر (370 میل) تک پہنچتے ہیں۔'' لیفـ‘‘ بہترین ہائی وے قابل برقی کار ہے جو 400,000 سے زائد یونٹس فروخت کرتا ہے‘ اس کے بعد ٹیسلا ماڈی ایس ایس نے 2017 ء تک دنیا بھر میں400,000 سے زائد یونٹس فروخت کیے۔ دسمبر 2018ء تک‘ دنیا بھر میں استعمال میں تقریبا 5.3 ملین لائٹ ڈیوٹی تمام بجلی اور پلگ ان میں ہائبرڈ گاڑیاں موجود تھیں۔ تیزی سے ترقی کے تجربے کے باوجود‘ 2018 ء کے اختتام تک پلگ ان میں برقی کاروں کے عالمی سٹاک نے دنیا بھر کی سڑکوں پر ہر 250 گاڑیوں میں سے(0.40فیصد) تقریباً 1 گاڑی برقی (ہائبرڈ ) دیکھی گئی۔ پلگ ان کار مارکیٹ مکمل طور پر بجلی کی بیٹری کی گاڑیاں منتقل کر رہی ہے‘ کیونکہ عالمی بیورو بی بی وی اور PHEVs سالانہ فروخت کے درمیان 2012 میں 56:44 سے 2015 میں 60:40 تک ہو گئی اور 2018 میں 69:31 تک اضافہ ہوا۔
2017 ء میں بھارتی وزیر ٹرانسپورٹ نتن گڈکری نے آٹوموبائل انڈسٹری (اور دنیا) کو حیرت میں ڈال دیا‘ انہوںنے اعلان کیا کہ وہ بھارت کو 2030ء تک مکمل طور پر برقی گاڑیوں کی جانب لے جائیں گے۔ایک کانفرنس میں برملا اظہار کیاکہ''چاہے آپ کو پسند آئے یا نہ آئے مگر میں یہ کر کے رہوں گا۔ میں آپ سے پوچھوں گا نہیں بلکہ میں اسے زبردستی کر کے دکھاؤں گا‘‘۔یقینا بلند عزم پر مبنی ہدف تھا کیونکہ ابھی تک فرانس اور برطانیہ بھی ایسا نہیں کہہ سکے ‘ وہ امید کر رہے ہیں کہ وہ کم از کم 2040 ء تک روایتی گاڑیاں ختم کر دیں گے۔گڈکری اور ان کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) حکومت نے بعد میں برقی پسنجر گاڑیاں لانے کے اپنے منصوبے کو 100 فیصد سے کم کر کے 30 فیصد کر دیا۔اب ایسا کیونکر کیا گیا؟ یہ سوال ابھی باقی ہے۔بھارتی حکومت کی جانب سے اپنے ہدف میں کمی لانے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔اتنی بڑی آٹوموبائل انڈسٹری کی جانب سے دباؤ ؟یاپھر ملازمتیں ختم ہونے کا خوف ؟جہاں تک ملازمتیں ختم ہونے کے خوف کا سوال ہے توبرقی ٹیکنالوجی آنے کی وجہ
سے نئے سٹیشن اورنئی مینو فیکچررکمپنیوں کے قیام سے ملازمتیں پیدا بھی ہوں گی۔بھارت کی گاڑی ساز صنعت کے مطابق مارچ میں ختم ہونے والے مالی سال میں 2 کروڑ 12 لاکھ موٹرسائیکلیں اور سکوٹر جبکہ 34 لاکھ پسنجر گاڑیاں فروخت ہوئیں۔ ان کے مقابلے میں تین پہیوں والی سات لاکھ سواریاں فروخت ہوئیں۔ حکومت سوچنے پر مجبور ہے بلکہ ممکن ہے بھارتی حکومت کے آٹو موبائل کے ٹائیکونز سے معاملات طے ہوئے ہوںکہ وہ گاڑیوں سے نیچے کے درجے پر توجہ دے گی۔ یعنی دو پہیوں (جن کی فروخت کہیں زیادہ ہے) اور تین پہیوں والی سواریاں ۔ان میں شامل ہے۔اس حوالے سے نیا منصوبہ بھی سامنے آیا کہ 2023 ء تک ملک میں صرف تین پہیوں والی جبکہ2025ء تک صرف دو پہیوں والی برقی گاڑیاں چلیں گی۔بھارتی حکومت کے دو بڑے مقاصد ہیں‘ ایک تو آلودگی پر قابو پایا جائے اور دوسرا ایک ابھرتی ہوئی صنعت میں سب سے آگے نکلا جائے۔بھارت کی وزیرِ خزانہ نرملا سیتارامن نے اس ماہ کے اوائل میں اپنی بجٹ تقریر میں کہا تھا کہ انڈیا برقی گاڑیوں کی پیداوار کا عالمی مرکز بننا چاہتا ہے۔چین دنیا میں برقی گاڑیوں کی سب سے بڑی مارکیٹ ہیـ‘ اس کے پاس برقی گاڑیوں کے چارجنگ سٹیشنز کا دنیا کا سب سے بڑا نیٹ ورک موجودہے ۔ اس کے علاوہ یہ دنیا کا سب سے بڑا بیٹری ساز بھی ہے۔چین کا پہلا سب وے 1960 ء کے آخر میں بیجنگ میں تعمیر کیا گیا تھا‘ لندن میں ابتدائی ترقی کے تقریباً سو سال بعد‘1984 تک 66 اہم سب وے نظام دنیا بھر میں موجود تھے۔شہری ریل ٹرانسمیشن نے شہری ٹریفک بھیڑ کی وجہ سے بہت زیادہ دباؤ کو کم کرنے میں مدد کی‘ جبکہ مسافروں کو تیز رفتار اور سہولیات سے آراستہ گاڑیوں میں سفر کرنے کا موقع ملا۔تیانجن شہر تیز رفتار ٹرانزٹ سسٹم رکھنے والادوسرا شہر تھا اور شنگھائی تیسرا تھا‘ بعد میں 1995ء میں اس کے میٹرو افتتاح کے بعد میٹرو اور ہلکی ریلوے لائنوں کو بھی شامل کیاگیا۔دنیا تیل کی قیمتوں کے اتار چڑھاؤ اور ماحولیاتی آلودگی سے نمٹنے کے لیے نئی ٹیکنالوجی کی طرف قدم بڑھا رہی ہے۔