بورس جانسن نے برسر اقتدار قدامت پسند پارٹی کی قیادت کرنے اور برطانیہ کے اگلے وزیر اعظم بننے کی دوڑ جیت لی‘ اپنی فتح کی تقریر میں 31 اکتوبر تک قوم کو یورپی یونین سے نکالنے کا عہد بھی دہرایا‘ لیکن اس چیلنج کا سامنا کرنے کے لئے بہت سے مسائل درپیش ہوں گے۔جسٹس سیکر ٹری ڈیوڈ گاؤک سمیت متعدد وزرا نے استعفیٰ دے دیا، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مسٹر جانسن کے پیش گوئی شدہ اقتصادی جھٹکے کوـ، معاہدے کے بغیر یورپی یونین چھوڑنے کی کسی بھی کوشش کی مخالفت کریں گے۔
اگر ایسا ہوتا ہے ،تومسٹر جانسن، لندن کے سابق میئر اور سیکرٹری خارجہ، ایک ایسی اقلیتی حکومت چلائیں گے جو ایک چھوٹی سی شمالی آئرش پارٹی کی مدد سے پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کر چکی ہے۔ ان کی اپنی جماعت کے اندر ہی پارلیمنٹ میں مزید مخالفت پیدا ہوجائے گی، جس سے عام انتخابات کے جلد ہی امکانات بڑھ جاتے ہیں۔کچھ حلقوں میںبریگزٹ کی طرف سے ان کے اقدام پر تعریف کی جائے گی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد کسی بھی برطانوی وزیر اعظم کے سامنے سب سے بڑا سیاسی چیلنج تھا اور اس نے اپنے دو پیشہ ور افراد کا کیریئر ختم کیا تھا۔چہ مگوئیاں جاری ہیں،ان کی کامیابی سے اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ بریگزٹ پر کوئی ڈیل نہیں ہوگی اور برطانیہ یورپی یونین سے رکنیت سے ماورا تعلقات استوار کرے گا۔اس صورت میں خلیجی ریاستوں کو برطانیہ کے ساتھ پہلے سے موجود اپنے تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے لیے نئے اقتصادی مواقع دستیاب ہوں گے۔پہلی قابل ذکر بات تو یہ ہے کہ بورس جانسن نے31 اکتوبر کی ڈیڈ لائن تک برطانیہ کے یورپی یونین سے انخلا کا عزم کیا ہے اور وہ کسی نئی ڈیل کے بغیر بھی ایسا کرسکتے ہیں۔
ان کا یہ اقدام ان کی سبکدوش ہونے والے پیش رو تھریسا مے کے بالکل برعکس ہوگا۔انہوں نے کسی ڈیل کے بغیر بریگزٹ کے امکان کو مسترد کردیا تھا،جبکہ بورس جانسن کے ساتھ وزارتِ عظمیٰ کی حتمی دوڑ میں شریک جیرمی ہنٹ نے کوئی ڈیل نہ کرنے کے بارے میں رواداری اورلچک دکھانے کا اظہار کیا تھا ،لیکن وہ اس کے بارے میں کوئی زیادہ پُرجوش نہیں تھے۔تھریسامے اور جیرمی ہنٹ نے تین سال قبل بریگزٹ پر ریفرنڈم کے وقت یورپی یونین میں موجود رہنے کے حق میں مہم چلائی تھی، جبکہ بورس جانسن اس تمام عمل کے دوران میں بریگزٹ کے زبردست مخالف رہے تھے۔اس کے پیش نظر اس بات کا امکان کم ہی نظر آتا ہے کہ تمام واقعات سیدھے سبھاؤ رونما ہوجائیں گے۔ یہ الگ بات ہے کہ بورس جانسن یورپی یونین سے تھریسامے سے زیادہ بہتر ڈیل کے لیے مذاکرات کرتے ہیںیا وہ سرے سے کسی نئی عدم سمجھوتے کے لیے پیش رفت کرتے ہیں۔
تھریسامے کی وزارتِ عظمیٰ میں ارکان کی اکثریت نے کسی ڈیل کے بغیر بریگزٹ کو بڑی شدت سے مسترد کردیا تھا اور قدامت پسند جماعت کے ارکان کی بڑی اکثریت نے بھی اس کی حمایت کی تھی۔ اگر اب بورس جانسن برطانیہ کو ڈیل کے بغیر بریگزٹ کی جانب لے جاتے ہیں تو انہیں پارلیمان میں عدم اعتماد کے ووٹ کا بھی سامنا ہوسکتا ہے۔اس کا حتمی نتیجہ حکومت کی ناکامی کی صورت میں بھی برآمد ہوسکتا ہے اور بورس جانسن قبل ازوقت عام انتخابات کرانے پر مجبور ہوسکتے ہیں۔برطانیہ میں آئندہ عام انتخابات میں بریگزٹ ہی یقینی طورپر ایک بنیادی مسئلہ ہوگا‘ لیکن ان کا نتیجہ غیر یقینی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ قدامت پسند جماعت اور بریگزٹ پارٹی، دونوں''نو ڈیل بریگزٹ‘‘ کے نام پر اکثریت حاصل کرلیں، لیکن یورپی یونین میں برطانیہ کی موجودگی کی حامی جماعتیں بھی اکثریت حاصل کرسکتی ہیں۔تاہم بعض مبصرین کا خیال ہے کہ ان نئے انتخابات کا نتیجہ ایک اور معلق پارلیمان ہوگا اور طرفین کی کوئی بھی جماعت قابلِ ذکر اکثریت حاصل نہیں کرسکے گی۔ یوں ایک مرتبہ پھر ڈیڈ لاک ہوگا اور نئے عام انتخابات کی راہ ہموار ہوگی۔
برطانیہ میں اگر موجودہ نظام ہی یرغمال بنا رہتا ہے اور بریگزٹ پر سیاسی جماعتوں کے درمیان اسی طرح عدم اتفاق جاری رہتا ہے تو پھر بریگزٹ از خود ہی کسی سمجھوتے کے بغیررونما ہوجائے گا۔ یورپی یونین برطانیہ کو کسی سمجھوتے کے لیے مزید توسیع دے یا نہ دے مگر یورپی سیاست دانوں کے بیانات کے پیش نظر اس بات کا بہت کم امکان نظر آتا ہے۔یورپی کمیشن کی نومنتخب صدر (جرمن سیاست دان) ارسولا وان دیر لیین نے بھی ایک حالیہ بیان میں اس توسیع کی تائید نہیں کی ۔یورپی یونین کے بہت سے لیڈر جون 2016ء میں منعقدہ بریگزٹ ریفرنڈم کے نتائج پر ہکا بکا رہ گئے تھے ، انہوں نے برطانیہ پر زور دیا تھا کہ وہ اپنے اس فیصلے پر نظرثانی کرے۔تاہم تب سے یورپی یونین کے بعض لیڈروں نے تو سخت مؤقف اختیار کررکھا ہے اور اس موضوع پر مذاکرات بھی کھینچتے چلے جارہے ہیں۔
فرانسیسی صدر عمانوایل ماکروں اور ایسی ہی دوسری مرکزی شخصیات کا یہ خیال ہے کہ یورپی یونین کے مسائل کا حل زیادہ مرکزیت میں پنہاں ہے۔بالخصوص مالیاتی ہم آہنگی کی ضرورت ہے۔وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ برطانیہ اس طرح کے منصوبوں کو تہس نہس کرسکتا ہے۔اس کا ایک ثبوت تو جولائی ہی میں یورپی پارلیمان کے ابتدائی اجلاس میں مل گیا تھا ، بریگزٹ پارٹی کے نمائندوں نے یورپ کا قومی ترانہ گائے جانے کے وقت اپنے منہ ہی پھیر لیے تھے۔اس صورتحال کے پیش نظر یورپ کے علاوہ برطانیہ میں بھی بعض لوگوں کا خیال ہے کہ فیصلہ کن طلاق کا عمل جلد سے جلد رونما ہوجانا چاہیے۔