"NNC" (space) message & send to 7575

افغان امن میں پاکستان کا کردار

غیر ملکی میڈیا نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان ‘ امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات کے بعد وطن واپس جا کر طالبان کی قیادت سے ملاقات کریں گے اوران پر زور دیں گے کہ وہ افغانستان میں قیام امن کے لیے افغان حکومت سے براہ راست بات چیت شروع کریں‘ جبکہ وزیر اعظم عمران خان شروع سے یہ کہتے آئے ہیں کہ افغانستان کے مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ‘ اس کے لیے واحد راستہ پر امن بات چیت ہی ہے۔ اور‘ اب صدر ٹرمپ نے بھی یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ افغانستان کی جنگ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان امن معاہدہ کر کے ختم کی جائے‘ یہ مقصد حاصل کرنا ممکن ہو گیا ہے اور پاکستان اس میں مکمل مدد فراہم کرے گا۔
وزیر اعظم عمران خان گزشتہ دنوں واشنگٹن میں یونائیٹڈ انسٹی ٹیوٹ آف پیس نامی تھنک ٹینک سے خطاب کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اقتصادی ترقی کے لیے افغانستان میں امن واستحکام انتہائی ضروری ہے‘ لہٰذا افغانستان کا امن پورے خطے کے مفاد میں ہے۔ اس وقت پاکستان اور امریکا‘ افغانستان میں امن کے قیام کے لیے سب سے زیادہ سنجیدہ ہیں۔ اس سلسلے میں ان کے اور امریکی صدر ٹرمپ کے خیالات میں ہم آہنگی ہے۔وزیر اعظم عمران خان نے اپنے خطاب میں اس بات پربھی زور دیا کہ پاکستان کو امداد کی ضرورت نہیں‘ کیونکہ ماضی میں پاکستان امداد پر انحصار کرتا رہا ہے‘ جو شرمناک ہے۔ اب پاکستان‘ امریکا سے ایسے تعلقات چاہتا ہے ‘جو برابری‘ دوستی اور باہمی اعتماد پر مبنی ہوں۔ ماضی میں امریکا اور پاکستان کے درمیان بداعتمادی کی کیفیت رہی ہے ‘ باوجود اس کے کہ دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان نے بہت نقصان اٹھایا‘ تاہم امریکا سمجھتا رہا کہ پاکستان نے اس سلسلے میں خاطر خواہ کوششیں نہیں کیں اور وہ امریکا کے ساتھ ڈبل گیم کر رہا ہے‘ لیکن صدر ٹرمپ سے ملاقات کے بعد اب پاکستان اور امریکا ایک صفحے پر ہیں۔
جمہوریت کے حوالے سے پاکستانی وزیراعظم نے زور دیتے ہوئے کہاکہ جمہوریت طویل عرصے تک جاری رہنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے سوشل میڈیا اہم کردار ادا کر رہا ہے اور سوشل میڈیا نے دنیا بھر میں جمہوریت کو فروغ دیا ہے۔ پاکستانی وزیراعظم نے مزید کہا کہ ان کا مقصد امریکا اور طالبان کے درمیان جاری بات چیت کو کسی حتمی نتیجے تک پہچانا ہے‘ تاکہ 18سال سے جاری افغان کشیدگی کا مکمل خاتمہ کیا جا سکے۔پاکستانی میڈیا کے مطابق‘ پاکستان نے افغان طالبان کو باضابطہ مذاکرات کی دعوت دینے کے عمل کا آغاز کر دیا ہے‘ جس کا مقصد امریکا اور طالبان کے درمیان جاری بات چیت کو کسی حتمی نتیجے تک پہچانا ہے‘ تاکہ 18سال سے جاری افغان کشیدگی کا مکمل خاتمہ کیا جا سکے‘ تاہم معاملے کی حساسیت کی بناء پر حکومت پاکستان نے فیصلہ کیا ہے کہ مذاکرات کی دعوت اور اس بارے میں جاری معاملات کے بارے میں کوئی بھی وزیر یا نمائندہ بیان بازی نہیں کرے گا۔ پاکستان باقاعدہ طور دعوت نامے طالبان نائب کمانڈر عبدالغنی برادر اور شیر عباس ستنگزئی کو دوحہ بھجوائے گا‘ کیونکہ طالبان کے یہی دو رہنما امریکا کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد سے بھی مذاکرات کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ طالبان نائب کمانڈر عبدالغنی برادر کئی سال تک پاکستان کی حراست میں رہے اور انہیں گزشتہ برس امریکا اور افغان حکومت کے کہنے پر رہا کیا گیا تھا۔مبصرین کا کہنا ہے کہ عبدالغنی برادر کی رہائی کے بعد سے افغان طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکرات کی راہ ہموار ہوئی ‘جو اب ممکنہ طور پر ایک بڑی ڈیل کی طرف جا رہی ہے ‘تاہم طالبان کو باقاعدہ دعوت دینے سے قبل پاکستان نے فیصلہ کیا ہے کہ افغان حکومت بالخصوص صدر اشرف غنی کو اس معاملے پر اعتماد میں لیا جائے گا‘کیونکہ افغان حکومت نے اس معاملے پر طالبان کے ساتھ پاکستان کے براہ راست مذاکرات پر تنقید کی تھی‘ جس کی وجہ سے پاکستان کو مذاکرات ملتو ی کرنا پڑے تھے۔رواں برس فروری میں افغان طالبان کا وفد وزیراعظم عمران خان کی دعوت پر پاکستان آنے والا تھا‘ لیکن عین موقع پر طالبان کے دورے کو افغان صدر کے بیان کے بعد ملتوی کرنا پڑا تھا۔ مزید برأں پاکستان کو طالبان کے ساتھ بات چیت کو امریکی سپورٹ بھی حاصل ہے اور امریکا مسئلے کے حل کے لیے پاکستان سے ٹھوس اقدامات کا متمنی ہے۔
افغان طالبان پہلے ہی یہ عندیہ دے چکے ہیں کہ اگر پاکستان نے مذاکرات کی دعوت دی تو طالبان کا وفد ضرور بات چیت کے لیے پاکستان جائے گا۔ افغان طالبان اور امریکا کے مابین دوحہ میں جاری مذاکرات کے کئی دور مکمل ہو چکے‘ جس میں کئی اہم ایشوز پر بات چیت تقریباً حتمی مراحل میں داخل ہو چکی ہے‘ تاہم طالبان افغانستان سے امریکی فوجوں کے مکمل انخلاء اور امریکا افغانستان سے دہشت گردی کی مکمل روک تھام کی ضمانت چاہتا ہے۔ ان دونوں نکات پر مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔ افغان حکومت نے اعلان کیا تھا کہ وہ بہت جلد طالبان کے ساتھ یورپ کے کسی ملک میں براہ راست بات چیت کرنے والے ہیں‘ لیکن افغان طالبان نے فی الحال افغان حکومت کے ساتھ براہ راست بات چیت سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ افغان حکومت کے ساتھ صرف اس وقت بات چیت کریں گے ‘جب تک ان کے امریکا کے ساتھ مذاکرات فائنل ہو جائیں گے۔ادھر امریکہ نے بھی فوجی انخلاء کی تاریخ دینے کے اشارے دیے ہیں ۔
الغرض معاملات بہتری کی جانب جاتے دکھائی دے رہے ہیں اور غیر ملکی میڈیا کے مطابق‘ افغان امن مذاکرات میں پاکستان کا کردار انتہائی اہم ہوگا۔

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں