9مئی کوامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا کہ وہ 200 ارب ڈالر کی مالیت کی چینی مصنوعات پر اضافی محصولات لگائیں گے‘ساتھ یہ بھی کہاکہ چینی مصنوعات پر مزید محصولات بعد میں نافذ کی جائیں گی۔اس دھمکی کے باوجود امریکہ اور چین تجارتی جنگ کے خاتمے کے لیے مذاکرات جاری رہے۔امریکی صدر کی طرف سے چینی اشیا پر مزید محصولات کے نفاذ کی دھمکی اس وقت دی گئی جب دعویٰ کیا جارہا تھا کہ چین تجارتی معاہدے سے پیچھے ہٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔یہ نئی بات نہیں تھی ‘امریکہ اور چین پہلے ہی ایک دوسرے پر اربوں ڈالر کے اضافی محصولات عائد کر چکے ہیں۔دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے مابین تجارتی جنگ سے عالمی معیشت پر بھی گہرا اثر پڑرہا ہے۔عالمی مالیاتی ادارے کے مطابق امریکہ چین کی تجارتی جنگ عالمی تجارت کی شرح ِترقی کو متاثر کر رہی ہے۔
کچھ ممالک چین امریکہ تجارتی جنگ کی وجہ سے بالواسطہ طور پر متاثر ہو رہے ہیں۔صدر ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد امریکہ نے صرف چین کے ساتھ ہی تجارتی جنگ نہیں شروع کر رکھی بلکہ کچھ عرصے سے کئی اور ممالک کے ساتھ بھی تجارتی محاذچھیڑ رکھا ہے۔صدر ٹرمپ نے امریکی صارفین کو امریکی مصنوعات خریدنے پر مجبور کرنے کے لیے میکسیکو‘ کینیڈا اور یورپی یونین کی مصنوعات پر ایسے ہی محصولات کا نفاذ کیا جیسا وہ چین پر عائد کر رہے ہیں‘جواباًمیکسیکو‘ یورپی یونین‘ اور کینیڈا نے بھی امریکی مصنوعات پر اسی شرح سے محصولات نافذ کئے ہیں۔ تجارتی جنگ مالیاتی منڈیوں میں غیریقینی کا سبب بنی اوراس غیر یقینی کی فضا سے سرمایہ کاروں کو نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔
2018ء میں ہانگ گانگ کا سٹاک انڈکس 13 فیصد کم ہو گیا جبکہ شنگھائی کمپوزیٹ میں 25 فیصد کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ دونوں انڈیکس نے 2019ء میں بالترتیب 12 اور 16 فیصد قدر کو بحال کر لیا ہے۔تجارتی جنگ کی وجہ سے مالیاتی مارکیٹوں میں آنے والی مندی سے امریکی سٹاکس چینی سٹاکس کی نسبت کم متاثر ہوئی ہیں۔ڈاؤ جونز میں 2018 ء میں چھ فیصد کمی ہوئی‘ لیکن 2019ء میں ڈاؤ جونز میں گیارہ فیصد اضافہ ہو ا۔ کئی ماہرین کہتے ہیں کہ یہ جھگڑا محض تجارت کا نہیں بلکہ اصل میں طاقت کی وہ لڑائی ہے جس میں دو مختلف نقطہ نظر ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق کوئی باہمی تجارتی معاہدہ ہویا نہ ہو‘امریکہ اور چین کے درمیان لڑائی کا دائرہ پھیلتا رہے گا‘ آنے والے وقت میں اس مسئلے کو حل کرنا مشکل تر ہو تا جائے گا۔
امریکہ نے سرکاری طور پر چین کو کرنسی میں رد و بدل کرنے والا ملک قرار دیا ہے۔ اس بیان کے بعد دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے درمیان تناؤ مزید بڑھنے کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔امریکہ محکمہ خزانہ کے اعلان کے بعد ڈالر کے مقابلے میں چینی کرنسی یوان کی قدر میں تیزی سے گراوٹ دیکھی گئی۔یوان کی قدر میں گراوٹ کے لیے عالمی مارکیٹ تیار نہیں تھی کیونکہ چین عموماً اپنی کرنسی کو سہارا دینے کے لیے اقدامات کرتا آیا ہے اور اس میں کامیاب بھی ہوا۔رواں ماہ چین نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے 300 ارب ڈالر مالیت کی چینی درآمدات پر دس فیصد ڈیوٹی لگانے کے خلاف مزاحمت کا اعلان بھی کیا تھا۔ماہرین کا کہنا ہے کہ جب بھی امریکی محکمہ خزانہ کسی ملک پرکرنسی میں رد و بدل کرنے کاالزام لگاتا ہے جیسا کہ اس نے چین پر لگایا‘ اس کا اگلا مرحلہ دونوں ممالک میں مذاکرات کا ہوتا ہے۔مگر یہاں اچنبے کی بات یہ ہے کہ اس معاملے میں دونوں ممالک میں گذشتہ ایک سال سے زائد عرصے سے تجارتی مذاکرات چل رہے ہیں۔دوسری جانب اس الزام نے امریکہ کے لیے راہ ہموار کر دی ہے کہ وہ چینی درآمدات پر ڈیوٹی لگا دے گا۔ توقع یہ بھی کی جاری ہے کہ وہ اس معاملے پر اپنے تحفظات آئی ایم ایف کے سامنے رکھے گا۔ لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ اس سے کیا حاصل ہو گا؟یہ بات بھی درست ہے کہ فیصلے سے تکنیکی طور پر کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئے گی لیکن اہم سیاسی اثرات ضرور مرتب ہوں گے۔ ہر کوئی بخوبی آگاہ ہے‘ جب تجارت کی بات آئے گی تو چین کی جانب سے سمجھوتے کا امکان بڑھ جائے گا۔کرنسی کی جنگ کا امکان پہلے سے گھبرائے سرمایہ کاروں کے اعصاب کو جکڑا ہوا ہے ان کے لیے یقینا یہ کوئی نئی بات نہ ہوگی۔
امریکہ کی جانب چین پر کرنسی میں ردو بدل کا الزام چینی کرنسی کی ویلیو 11 سال کی کم ترین سطح پرآنے کے بعد لگایا گیا ۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ چین کے اس اقدام سے دنیا بھر میں چینی مصنوعات مزید سستی ہوجائیں گی اور یہ امریکی مصنوعات کی سب سے بڑی حریف بن کر سامنے آئیں گی۔ کرنسی ڈی ویلیو ایشن کے باعث امریکہ میں بھی چینی مصنوعات کی مانگ میں اضافہ ہوگا‘ جس سے امریکہ کا چین کے ساتھ تجارتی خسارہ مزید بڑھ جائے گا۔ امریکہ چین تجارتی کشیدگی کے باعث اس وقت چینی کرنسی یوان ڈالر کے مقابلے میں 9 سال کی کم ترین سطح پہنچ چکی ہے۔ مارکیٹ میں ڈالر کے مقابلے میں یوان گر کر 7.1085 یوان فی ڈالر کی سطح پر آن پہنچا جو اگست 2010ء کے بعد اب تک کی کم ترین سطح ہے۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق پیر کو چین میں ڈالر کے مقابلے میں یوان کی شرح تبادلہ 9 سال کی کم ترین سطح پر رہی ہے‘ جس کی وجہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مزید 300 ارب ڈالر کی چینی مصنوعات کی درآمد پر محصول عائد کرنے کے اعلان کے بعد‘ اس کی چین کے ساتھ بڑھتی تجارتی کشیدگی ہے ۔تاہم دوسری جانب یوان کی شرح تبادلہ میں کمی سے اس قیاس کو بھی تقویت مل رہی ہے کہ چینی حکومت امریکی محصولات سے نمٹنے کے لیے ڈالر کے مقابلے میں یوان کی شرح تبادلہ کم کرنے کی اجازت دے رہی ہے۔