کشمیر برصغیر پاک و ہند کا شمال مغربی علاقہ ہے۔ تاریخی طور پرمقبوضہ کشمیر وہ وادی ہے‘ جو ہمالیہ اور پیر پنجال کے پہاڑی سلسلوں کے درمیان میں واقع ہے۔ وادی مقبوضہ کشمیر پہاڑوں کے دامن میں کئی دریاؤں سے زرخیز ہونے والی سرزمین ہے۔یہ اپنے قدرتی حسن کے باعث زمین پر جنت تصور کی جاتی ہے۔مقبوضہ کشمیر تنازعے کی اہم وجہ بھارت اس کے وسائل پر قابض ہے اورنہتے کشمیریوں کا بے وجہ خون بہا رہا ہے۔ پاکستان مقبو ضہ کشمیر کو آزادی دلوانا چاہتا ہے۔بھارت اس وقت مقبوضہ کشمیر کے 101‘387 مربع کلومیٹر پر غاصبانہ قبضہ جمائے بیٹھا ہے۔عالمی سطح پر اقوام متحدہ بھی خطہ کشمیر کو متنازع سمجھتا ہے ‘مگر بھارتی ہٹ دھرمی ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی ۔واضح رہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان اسی مسئلے پر تین جنگیں بھی ہو چکی ہیں۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مقبوضہ کشمیر کی حالیہ صورتحال پر خصوصی اجلاس رواں ہفتے منعقد ہوا۔ بندکمرہ اجلاس میں کشمیر کی صورتحال پر غور کیا گیا۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے 15 رکن ممالک کے مندوبین اس اجلاس میں شریک ہوئے۔اجلاس میں یو این ملٹری ایڈوائزر جنرل کارلوس لوئٹے اوراقوام متحدہ کے قیام امن سپورٹ مشن کے معاون سیکریٹری جنرل آسکر فرنانڈس نے بھی شرکاء کو بریفنگ دی۔مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس ایک گھنٹہ دس منٹ جاری رہا۔اجلاس کے بعداقوام متحدہ میں چین کے مستقل مندوب کا باضابطہ بیان سامنے آیا‘ جس میں انہوں نے کہا کہ سکیورٹی کونسل اجلاس میں کشمیر کے معاملے پر تفصیلی بات ہوئی ہے۔چینی مستقل مندوب نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر ارکان کی جانب سے گہری تشویش کا اظہاربھی کیا۔
چینی مندوب ژینگ جون نے کہا کہ بھارتی اقدام نے چین کی خود مختاری کو بھی چیلنج کیا ہے۔سلامتی کونسل کے ارکان کو بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر شدید تحفظات ہیں اور فریقین کو کسی بھی ایسے یکطرفہ اقدام سے گریز کرنا چاہیے‘ جو صورتحال کو مزید خراب کردیں۔ بھارت کی آئینی ترمیم نے کشمیر کی صورت حال تبدیل کی‘ جس سے خطے میں کشیدگی بڑھی‘ مسئلہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ کے چارٹر‘ قراردادوں اور دوطرفہ معاہدوں کے مطابق ہونا چاہیے۔چین کی خود مختاری کو چیلنج کیے جانے پر چین کی جانب سے تشویش کا اظہار بھی کیاگیا۔چینی مندوب نے اس بات پر زور دیاکہ پاکستان‘ چین اور بھارت آپس میں پڑوسی ہیں‘ پاکستان اور بھارت ترقی کے دوراہے پر کھڑے ہیں‘ پاکستان اور بھارت دونوں سے اپیل ہے کہ معاملے کا پُرامن حل تلاش کریں۔
اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے پاکستان کی جانب سے سلامتی کونسل کے اس اجلاس کا خیر مقدم کیا۔ملیحہ لودھی نے کہا کہ ہم مقبوضہ جموں و کشمیر کے مسئلے کا پُرامن حل چاہتے ہیں‘ نہتے کشمیریوں کی آواز آج اعلیٰ ترین فورم پر سنی گئی ۔ان کا کہنا تھا کہ آج کے اس اجلاس سے انڈیا کے اس دعوے کی نفی ہوتی ہے کہ کشمیر انڈیا کا اندورنی معاملہ ہے۔ملیحہ لودھی کا کہنا تھا کہا کہ آج سکیورٹی کونسل میں کشمیر کی آواز گونجتی رہی۔ گزشتہ پچاس سال یہ پہلا موقع ہے کہ اکیلے جموں اور کشمیر کو سکیورٹی کونسل میں زیر بحث لایا گیا۔یہاں کئی سوالات ہر ذی شعور کے ذہن میں زیرگردش ہیں کہ پاکستان کا اگلا لائحہ عمل کیا ہوگا؟یقینا کشمیر کے مسئلے پر سلامتی کونسل کا اجلاس پاکستان کی بہت بڑی کامیابی ہے ۔سلامتی کونسل کے اجلاس کے بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا بیان سامنے آیا کہ پاکستان نے سلامتی کونسل کے تمام ممبران سے بات کی‘ مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پر جی فائیو ممالک کو اعتماد میں لیا۔ اس میں کوئی شک نہیںکہ پاکستان خطے کی بہتری کے لیے قدم اٹھا رہا ہے۔ مسئلہ کشمیر 5 دہائیوں بعد سلامتی کونسل میں زیر بحث آیا۔ بھارت نے بہت کوشش کی کہ سلامتی کونسل کا اجلاس نہ ہوسکے۔ بھارت نے اجلاس روکنے کے لیے کئی رکاوٹیں کھڑی کیں ‘مگر اجلاس بلانے میں پاکستان کامیاب رہا۔دریں اثناء دنیا بھر میں کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے مظاہرے بھی جاری ہیں۔
سلامتی کونسل کے پانچ رکن ممالک خود ایجنڈا تشکیل دیتے ہیں‘ جسے کونسل کا صدر یو این کے تمام اراکین میں تقسیم کرتا ہے۔ رکن ممالک اپنی تجاویز دیتے ہیں‘ لیکن ہوتا پھر وہی ہے‘ جو کونسل چاہتی ہے۔قرارداد پاس کرنے کا طریقہ کار پیچیدہ ہے۔ پہلے ڈرافٹ کی تیاری کچھ اس طریقے سے عمل میں لائی جاتی ہے کہ وہ سب کو قابل قبول بھی ہو۔کونسل میں قرارداد پیش ہونے کے بعد ووٹنگ کا مرحلہ آتا ہے ‘جس میں پانچ مستقل رکن ممالک کے علاوہ دس غیر مستقل رکن ممالک بھی حصہ لیتے ہیں۔غیر مستقل رکن ممالک بھی قرارداد پر اپنی تجاویز دیتے ہیں ‘لیکن اس کے بعد بھی ہوتا وہی ہے‘ جو کونسل کے مستقل ارکان کی مرضی ہوتی ہے۔جب یہ ممالک ایک حل ‘ایک نقطے پر پہنچ جاتے ہیں‘ تو پھر ہی کوئی نتیجہ نکلتا ہے‘ لیکن اگر ایک رکن بھی متفق نہ ہو تو قرارداد ویٹو ہوجاتی ہے‘ تاہم اس بات سے منہ نہیں موڑا جاسکتا‘سلامتی کونسل میں مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر خصوصی اجلاس کا منعقد ہونا بڑی کامیابی سے کم نہیں۔
مقبوضہ کشمیر میںانسان بحرانی کیفیت میں ہیں‘ انسانی حقوق پامال ہورہے ہیں‘ دنیا میں کوئی اس پر آواز نہیں اٹھا رہا ‘ تاہم پاکستان 70 سال سے اپنے کشمیری بھائیوں کی آواز بلند کیے ہوئے ہے۔ مقبوضہ کشمیر ہی نہیں‘بھارتی ریاست آسام میںبھی تمام مذاہب کے مہاجرین کو بھارتی شہریت دینے سے متعلق متنازعہ قانون سازی کے بعد چار ملین افراد کو غیر ملکی قرار دیا جا سکتا ہے۔ ہندو قوم پرست حکومت بالخصوص آسام کی مسلم آبادی کو نشانہ بنا رہی ہے۔آسام کے عوام بھی تذبذب کا شکار ہیں۔امید ہے کہ پاکستان اپنی سفارتی کامیابیوں کا سلسلہ جاری رکھے گا اورعالمی برادری کشمیری عوام کو ان کا حق دلوانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے گی۔