اب وقت آگیا ہے؛اعتراف کرلیا جائے کہ امریکہ اور چین کے مابین تجارتی جنگ جلدختم نہیں ہوگی۔یہ تجارتی جنگ مستقل جنگ کے مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔ جنگی حکمت عملی تبدیل ہو کر‘ کرنسی کی منڈیوں میں منتقل ہوگئی ہے۔ چین کے مرکزی بینک ''پیپلز بینک آف چائنہ‘‘نے چینی یوآن کو امریکی ڈالر کے مد مقابل لاکھڑاکیا ہے۔ چینی مرکزی بینک ہر روز سرکاری شرح طے کرتا ہے‘ لیکن غیر ملکی منڈیوں پر کرنسی کو فلوٹ پلس یا مائنس 2 فیصد تک کا گراف رہتا ہے۔ ان دنوں‘ اس کا مطلب عام طور پر منفی ہے۔
در حقیقت‘ اپریل کے آخر میں تجارتی مذاکرات کے خاتمے کے بعد سے یوآن 5 فیصد سے زیادہ گر گیا تھا۔یہ کوئی تباہی نہیں۔ بینک آف انگلینڈ نے 2016ء کے بریگزٹ ووٹنگ کے جواب میں پاونڈ میں 10 فیصد سے زیادہ کی کمی کر دی تھی ‘مگریہ ایک پریشان کن رجحان ہے۔ 10 سال‘ 2006 ء سے 2016ء تک‘ چین نے اپنی کامیاب مہم چلائی ۔ یوآن کو مستحکم کرنے کیلئے سخت محنت کی ‘تاکہ اس کی کرنسی کو ڈالر‘ یورو‘ ین اور پاؤنڈ کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی تسلیم شدہ ریزرو کرنسیوں کی ٹوکری میں شامل کیا جاسکے۔ چین نے اپنے ڈالر کے کھمبے کو برقرار رکھا ‘ یہاں تک کہ پچھلے ایک عشرے کے دوران امریکہ نے بھی اس بات کو تسلیم کیا ہے۔
تجارتی جنگ کے دوران‘ چین تجارت کو یورپ کی طرف تبدیل کرکے امریکہ کی برآمدات میں کمی کا اہتمام کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ امریکی ڈالر کی تیزی سے اخراج کے باوجود چین کے عوام نے مستحکم سرکاری کرنسی کے ذخائر کو برقرار رکھنے میں مدد کی ہے۔امریکی محکمہ خزانہ کے غیر ملکی حصص کے اعداد و شمار کے مطابق‘ گزشتہ 12 ماہ کے دوران بینک نے اپنے امریکی ڈالر کے ذخیرے میں سے تقریباً 80ارب ڈالر فروخت کردیئے۔ یہ اقدام یوآن کی غیرمعمولی کمی کو کم کرنے کی ایک کامیاب کوشش کے طور پر اٹھایا گیا۔ ان ذخائر کو مجموعی طور پر ریزرو کی سطح کو مستحکم رکھتے ہوئے‘ یورو کے ساتھ ممکنہ طور پر تبدیل کردیا گیا ہے۔
چین اپنی کرنسی‘ اس کے بین الاقوامی وابستگیوں اور حتیٰ کہ اس کے بیلٹ اینڈ روڈ کے منصوبوں میںبینکوں کو ڈالروں میں قرض دینا بھی بینچ مارک کرتا ہے۔ دو عشروں کی کوشش کے باوجود‘ وہ اس لنک کو توڑنے میں ناکام رہا ہے۔ اب‘ تجارتی جنگ چین کو اپنی ضرورت کے مطابق‘ ڈالر کمانے میں مشکل اور مشکل تر ہو رہی ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کیلئے ملک تیزی سے یورپ کو برآمدات پر سبسڈی دے رہا ہے۔ کوئی شک نہیں‘ہمیشہ کی طرح تجارتی جنگ میں چین حاوی رہاہے۔
امریکہ کے کمزور مقامات بنیادی طور پر سیاسی ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ کے سب سے زیادہ طاقتور مخالف بیجنگ میں نہیں‘ بلکہ واشنگٹن میں ہیں۔ غیر منطقی ‘لیکن مکمل طور پر انتظامیہ کے خلاف کانگریس کا بجٹ آفس یہ کہہ رہا ہے کہ 2020ء تک تجارتی جنگ کا اوسط ‘امریکی گھرانوں پر 580 ڈالر لاگت آئے گی۔ تفصیلی رپورٹ کا جائزہ لیںتو معلوم ہوتا ہے کہ اس نقصان کا بیشتر حصہ متوقع ہے۔ حقیقی سرمایہ کاری میں کمی آئے گی ‘جس کا گھروں سے کوئی تعلق نہیں ۔ بجٹ آفس کا خیال ہے کہ تجارتی جنگ کی وجہ سے زیادہ تر ممکنہ نقصان امریکی کمپنیوں کو ہوگا‘ جو تجارتی جنگ کی غیر یقینی صورتحال کے ہوتے ہوئے‘ امریکہ میں سرمایہ کاری کرچکی‘ مگریہ صرف اندازے کے سوا کچھ نہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے تمام نرخوں کے براہ راست اثرات ‘ کانگریس کے بجٹ آفس نے برآمدات میں کمی (تقریباً40 ارب ڈالر) کی تیاری بھی کر رکھی ہے‘ جس کی وجہ سے درآمدات میں مزید بڑے پیمانے پر (تقریباً80 ارب) کمی واقع ہوگی۔ اس کے نتیجے میں مجموعی طور پر بہتری آنے کا امکان ہے۔دریں اثناء امریکی تجارتی توازن ‘ اضافی محصولات ٹیکس ‘محصولات میں اضافے کا باعث بنے گا۔ اس سے وفاقی خسارے میں اضافے میں مدد بھی ملے گی۔ یہ امریکی ماڈلنگ کا سب سے مضبوط حصہ ہے۔یہ عشروں کے تاریخی تجارتی اعداد و شمار پر مبنی ہے‘ مگر یہ بھی سچ ہے ۔تجارتی جنگ پر تجزیہ کرنے کیلئے آپ کو محتاط انداز میں حقائق کودیکھنا پڑے گا۔ امریکی رپورٹ کے صفحہ 37 پر ایک رازدفن ہے‘ اسی رپورٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے ‘ڈالر کی مقدار کا حساب لگانا ہوگا۔
کانگریس کے علاوہ‘ دوسرے نقادوں نے ٹیرف سے متاثرہ افراط زر کے جوازکو بلند کیا ہے۔ اس کے باوجود امریکی فیڈرل ریزرو نے افراط زر کو اپنے 2 فیصد ہدف کی شرح تک پہنچانے کیلئے مستقل جدوجہد جاری رکھی ہوئی ہے۔ اگر ٹرمپ کے محصولات امریکی صارفین کیلئے قیمتیں بڑھا دیتے ہیں ‘تو حقیقت میں اس کے اہداف کو پورا کرنے میں مددبھی ملتی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ نرخوں کی عدم موجودگی میں‘ صارفین کی قیمتوں میں اضافے کی حوصلہ افزائی کی کوشش میں سود کی شرح کو اور بھی زیادہ جارحانہ انداز میں کم کیا ہوگا۔امریکی میڈیا سٹاک مارکیٹ کو لے کر ہلچل مچائے ہوئے ہے ۔ہرامریکی اقدام کے ساتھ‘ تجارتی جنگ کے خلاف ڈھیر ہوجاتا ہے۔ جب سٹاک مارکیٹ گرتی ہے ‘توتجارتی جنگ کے خوف کے بادل مزید منڈلامنے لگتے ہیں۔ جب سٹاک مارکیٹ میں اضافہ ہوتا ہے‘ تواس کی وجہ تجارتی جنگ نرمی کوتصور کیا جاتا ہے ۔ حقیقت میں ''ڈاؤ جونز انڈسٹریل‘‘ ہر ہفتے میں سے کم از کم ایک دن اوسطا ً ایک فیصد بڑھ جاتی ہے۔ شکاگو بورڈ آپشنز ایکسچینج VIX انڈیکس‘ جو سٹاک مارکیٹ میں اتار چڑھاؤ کو ناپتا ہے‘امریکی ادارے کی رپورٹ کے مطابق‘ در حقیقت سابق صدر براک اوباما کی دوسری مدت ملازمت کے دوران کم تھا۔ الغرض مجموعی طور پر سٹاک مارکیٹ اونچائی کے قریب تجارت جاری رکھے ہوئے ہے۔ تقریباً تین ماہ قبل‘ تجارتی جنگ گرم ہونے کے بعدعملی طور پر کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔
یہ حقیقت کہ چین ڈالر کی کھمبی برقرار رکھے ہوئے ہے‘ جبکہ اپنے ذخائر کا ایک تہائی ڈالر میں رکھنا تشویش کی ایک خاص وجہ ہے۔امریکہ میں پالیسی کی تمام تر گہما گہمی ''جوہری آپشن‘‘ کے بارے میں ہے‘ جس میں چین ڈالر کومزید گرا سکتا ہے۔ امریکی ڈالر کی قدر میں کمی آئے گی اور معمولی افراط زر کو فروغ ملے گا۔ عالمی معیشت کیلئے زیادہ پریشانی کا امکان یہ ہے کہ ممکن ہے کہ چین کو منظم یورپی تجارت کو برقرار رکھنے کیلئے یورو کے بڑے پیمانے پر قبضہ کرنا پڑے۔ اگر ایسا ہوتا ہے‘ تو یورواور ین کرنسی مارکیٹوں میں سنجیدگی سے خلل ڈال سکتے ہیں۔