27اگست کوبھارتی مرکزی بینک نے نریندر مودی کی حکومت کو چوبیس ارب ڈالر مہیا کرنیکا اعلان کیا ہے‘ جسے اس وقت مالی وسائل کی اشد ضرورت ہے ۔اقتصادی ماہرین کے مطابق نریندر مودی کو اس وقت داخلی اور خارجی سطح طور پر جن بڑے مسائل کا سامنا ہے‘ ان میں سے ایک ملکی معیشت کی بگڑتی ہوئی صورت حال ہے۔ مودی پر اس وقت شدید دباؤ ہے کہ وہ ملکی معیشت میں ترقی کی رفتار بڑھانے کے لیے جلد از جلد فیصلہ کن اقدامات کرے ‘دوسری جانب کشمیر پر غاصبانہ قبضے اور آرٹیکل 370کے خاتمے کے بعد دباو ٔدن بدن بڑھتا جا رہاہے ۔ بھارتی معیشت میں ترقی کی رفتار گزشتہ تین سہ ماہیوں میں کم ہوئی ہے۔ کوئی شک نہیں اب بھارت دنیا کی سب سے تیز رفتار ترقی کرنے والی معیشت کا اعزاز بھی کھو چکا ہے۔ بھارت میں اس وقت بے روزگاری کی شرح کئی گنا بڑھ چکی ہے ‘ جتنی 1970ء کے عشرے کے بعد سے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی تھی۔ اشتراکی نظامِ معیشت میں مسابقت نہیں ہوتی۔ تنوع سے گریز کیا جاتا ہے۔ انسانی خواہشات کے بے لگام ہونے کا خیال رکھے بغیر‘ انہیں یکسر معدوم تصور کیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس اشتراکی نظام کی افسر شاہی‘ اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھا کرنظام میں خلل ڈالتی ہے۔کم سرمایہ کاری اور بے روزگاری سے کئی مسائل جنم لیتے ہیں ‘ انکم کم اور اخراجات بڑھ جانے کی وجہ سے عوام مشکلات سے دوچار ہوتے ہیں۔ بہت زیادہ سبسڈیز دیے جانے سے جہاں حکومت کے خزانے پر بوجھ پڑتا ہے وہاں اتنی تنخواہ ملنے کے یقین کے ساتھ جس کی بنیاد پر زندہ رہا جا سکے‘ انسان کام کرنے سے گریزاں ہونے لگتا ہے۔کئی معاشی مسائل جنم لینے لگتے ہیں۔
نریندر مودی کی خواہش ہے کہ ان کی حکومت کو کسی طرح ایسے نئے لیکن خطیر مالی وسائل میسر آ سکیں‘ جن کی مدد سے وہ معیشت کو سنبھالا دینے کی کوشش کر سکیں۔ان حالات میں ملک کے مرکزی مالیاتی ادارے ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی ) نے اب اعلان کیا ہے کہ وہ مودی حکومت کو 24 ارب ڈالر مہیا کرے گا۔لیکن ماہرین کا کہناہے اس مالیاتی ادارے کا یہ فیصلہ اس کی آزادی اور غیر جانبداری کو مشکوک بناتے ہوئے ‘نئی تشویش کی وجہ بنے گا کہ آیا آر بی آئی اپنے فیصلے خود اور کسی بھی طرح کی سیاسی مداخلت کے بغیر کرتا ہے؟غیر ملکی میڈیا کے مطابق ریزرو بینک آف انڈیا کی کارکردگی کے حوالے سے غیر جانبداری کے آئینی تقاضوں کے پس منظر میں اس کا یہ اعلان تشویش کی وجہ بنا ہے ‘ ماضی میں اسی بینک کے اعلیٰ اہلکار جانبداری کی وجہ سے اپنے عہدوں سے مستعفی ہو چکے ہیں۔ ان اہلکاروں کا الزام تھا کہ حکومت مرکزی مالیاتی ادارے کی کارکردگی میں مداخلت کر رہی تھی۔گزشتہ دنوں آر بی آئی کے سابق گورنر ارجت پٹیل کے درمیان پالیسی کی سطح پر اختلافات تھے اور اسی لیے انہوں نے اپنی ٹرم پوری ہونے سے پہلے استعفیٰ دے دیا تھا۔
حزبِ اختلاف کی جماعت کانگریس نے آر بی آئی سے یہ رقم لینے پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ سابق وفاقی وزیر اور کانگریس کے رہنما آنند شرما نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آر بی آئی نے جیلان کمیٹی کی سفارش پر ایک ساتھ اتنی بڑی رقم انڈیا کی حکومت کو ٹرانسفر کر دی۔ یہ ساری رقم سرپلس تھی۔ اس کے ساتھ ہی آر بی آئی کی 2018ء اور 2019ء کی ساری کمائی سرکار کو دے دی گئی۔کچھ روز پہلے کمیٹی کے سربراہ ومل جیلان نے کہا تھا کہ یہ پیسہ چار پانچ سال میں دیا جائے گا ‘لیکن یہ ایک ہی بار میں دے دیا گیا۔ یہ فنڈ ایمرجنسی کے لیے تھا۔ یہ رقم اس صورت میں دی جاتی ہے جب ملک میں اقتصادی بحران پیدا ہوتا ہے۔ اب اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ ملک کی معاشی حالت ٹھیک نہیں ہے۔ریزرو بینک آف انڈیا کے ان فیصلوں سے سرمایہ کاروں پر گہرا اثر پڑا ہے۔ یہ بات زبان زدِ عام ہے کہ بینک اپنی خود مختاری کو کھو رہا ہے اورسرکار کے لالچ کو پورا کرنے کا ذریعہ بنتا جا رہا ہے۔کوئی دو رائے نہیںان اقدامات سے ریزرو بینک آف انڈیا کا اعتبار کم ہو رہا ہے۔
بھارتی معیشت میں سست روی اور روزگار کے مواقع ختم ہو جانے پر ریاستی اداروں اور بہت سے ماہرین کے بعد بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے بھی اپنی گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے بھارت کے لیے اپنے سالانہ مشورے میں اقتصادی سست روی اور آمدنی میں کمی کے بعد گہرے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے‘ ملکی وزارتِ خزانہ سے پوچھا ہے کہ قومی بجٹ میں براہ راست اور بالواسطہ ٹیکسوں نیز اشیا اور خدمات سے متعلق ٹیکس (جی ایس ٹی) کی مد میں مالی وسائل کے حصول کا جو ہدف مقرر کیا گیا ہے‘ آیا وہ واقعی حاصل کیا جا سکتا ہے؟آئی ایم ایف نے اپنے مشورے میں جی ایس ٹی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے اور بالواسطہ ٹیکس نظام کو مزید سہل بنانے پر زو ر دیا ہے۔ اقتصادی سست روی کا اثر مختلف شعبوں پر واضح طور پر دکھائی دے رہا ہے۔ کئی اہم صنعتوں میں بڑے پیمانے پر ملازمین کی ملازمتیں ختم ہو چکی ہیں؟ بھارت کی فیڈریشن آف آٹو موبائل ڈیلرز (فاڈا) کے مطابق گزشتہ تین ماہ‘ یعنی مئی سے جولائی کے درمیان گاڑیاں فروخت کرنے والے تاجروں نے اپنے تقریباً دو لاکھ ملازمین فارغ کر دیے۔ مستقبل قریب میں کسی بہتری کی کوئی گنجائش نظر نہیں آ رہی۔خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ مزید ملازمتیں ختم ہونے سے بہت سے شو رومز بند ہو سکتے ہیں۔ فاڈا کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ 18 ماہ میں 271 شہروں میں 286 آٹو موبائل شورومز بند ہو چکے ہیں۔ کاروں کی فروخت میں 31 فیصد کمی ہو چکی ہے ‘جو گزشتہ 19برسوں کی سب سے اونچی شرح ہے۔
اگر بات کی جائے ٹیکسٹائل انڈسٹری کی تو بھارت میں اس وقت ٹیکسٹائل انڈسٹری کی حالت بھی نہایت خراب ہے۔ اس شعبے سے براہ راست یا بالواسطہ طور پر دس کروڑ افراد کا روزگار جڑا ہوا ہے۔ لیکن ملک بھر میں ایک تہائی سپننگ ملیں بند ہو چکی ہیں اور جو چل رہی ہیں‘ وہ بھی خسارے میں ہیں۔ ٹیکسٹائل ایسوسی ایشن آف انڈیا نے پچھلے دنوں ملک کے متعدد قومی اخبارات میں ایک اشتہار شائع کروا کر مودی حکومت کی توجہ اس تشویش ناک صورت حال کی جانب مبذول کرانے کی کوشش کی تھی۔ اس ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ اب تک 25 لاکھ سے 50 لاکھ تک ملازمتیں ختم ہو چکی ہیں۔کنفیڈریشن آف انڈین انڈسٹری کی ایک رپورٹ کے مطابق اس سال ملکی برآمدات کی مالیت میںبہت کمی دیکھی گئی ہے ‘ برآمدات میں 35 فیصد کی کمی ہوئی ہے۔