نریندر مودی کی حکومت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کے متنازعہ علاقے کو اپنی 70 سال پرانی آئینی خودمختاری سے الگ کیے تقریباً ایک مہینہ ہو چکا۔ اس فیصلے نے نا صرف مقبوضہ کشمیر‘ بلکہ عالمی سطح پراور یہاں تک کہ ہندوستان کے متنوع سیاسی میدانوں میں غم و غصہ کو جنم دیا‘ اسی طرح مقبوضہ کشمیر میں کئی ہفتوں سے احتجاج جاری ہے۔ ریاست کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی جانب سے 5 اگست کے اعلان کو ''ہندوستانی جمہوریت کا سیاہ ترین دن‘‘بھی قرار دیا گیا‘ لیکن مودی کے حامیوں نے‘مقبوضہ علاقے کو یونین میں جذب کرنے کے دیرینہ مقصد کو آگے ہی بڑھایاہے۔
مودی ان خطرات سے بخوبی واقف ہیں‘ جو ان کے اس فیصلے سے جنم لیتے ہیں‘ جس میں اس خطے میں مزید پرتشدد ‘شورش اور پاکستان کے ساتھ تعلقات خراب ہونے کے خطرات بھی شامل ہیں‘ لیکن حال ہی میں منتخب ہونے والے وزیر اعظم اور ان کی برسراقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کیلئے ہندوستان کے علاقائی اتحاد کو آگے بڑھانے کیلئے خطرات کہیں زیادہ بڑھ گئے ہیں۔ خاص طور پر جنوبی ایشیاء میں اقتدار کی قوت اب بدلنے لگی ہے۔
5 اگست کو بھارتی صدر رام ناتھ کووند نے ایک صدارتی فرمان جاری کیا‘ جس میں ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 370 کو ختم کر دیاگیا‘ جس سے مقبوضہ کشمیر کی خودمختاری سلب ہوئی۔ نئی دہلی نے علاقے کو دو زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کیا۔ ناگزیر رد عمل پر قابو پانے کیلئے مودی نے کئی ہزار اضافی فوجی مقبوضہ بھاری عسکری ریاست میں بھیجے‘ میڈیا کو بلیک آؤٹ کیا‘ فون اور انٹرنیٹ تک رسائی کو بند کردیا‘ کشمیر میں اس اعلان سے قبل ہی تین سابق وزرائے اعلیٰ کو حراست میں لے لیاگیا۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی احتیاطی تدابیر واضح کرتی ہیں کہ ان کا فیصلہ ایک منصوبہ بند سیاسی ہتھکنڈا تھا۔
مودی جانتاتھاکہ وہ کبھی بھی کشمیری اراکین اسمبلی کی منظوری حاصل نہیں کرسکیں گے ‘جس سے آرٹیکل 370 کو کالعدم قرار دینے کی ضرورت پڑی‘ لہٰذا انہوں نے ریاست کی سیاسی قیادت کو نظرانداز کیا ۔ 2015ء میںبی جے پی نے پہلی بار کشمیر کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے ساتھ اتحاد کیاتھا‘ لیکن دونوں میں متضاد نظریات کا مقابلہ رہا۔ بی جے پی کشمیر کی خود مختار حیثیت کو ختم کرنا چاہتی تھی‘ جبکہ پی ڈی پی نے مزید خودمختاری کا مطالبہ کیاتھا۔ تناؤ بڑھتا گیا‘ آخر کار جون میں اس اتحاد کا خاتمہ ہوااور بی جے پی اتحاد سے دستبردار ہوگئی۔اس سے نئی دہلی کیلئے مقبوضہ کشمیر کو ''صدر کی حکمرانی‘‘ کے تحت رکھنے کا راستہ ہموار ہوا‘ جس میں اب ریاست کی انتظامیہ اپنے ہی گورنر کے پاس آجائے گی۔ یہ فیصلہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ‘بھارتی صدر کے ذریعہ آسانی سے مقرر کیا گیا ۔ اگست 2018ء میں رام پال کووند( مودی کے مقرر کردہ) نے مقبوضہ کشمیر کے گورنر ستیہ پال ملک کی جگہ لے لی‘ جس نے نومبر میں ریاستی اسمبلی کو برخاست کردیا۔
یوںمتعدد بیرونی اور داخلی عوامل نے ان کے محرکات میں چھپے فیصلوں کو آگے بڑھایا ہے۔ ہندوستان کی سرحدوں کے شمال مغرب میں ایک تیز رفتار ترقی اور کشمکش بھی شامل ہے؛ چونکہ امریکہ افغانستان سے باہر جانے کیلئے بات چیت کررہا ہے۔مودی کو خدشہ ہے کہ کابل میں امن سے ‘ افغانستان کے ساتھ لڑے جانے والے مغربی پاکستانی حصہ کو محفوظ بنالے گا۔ اگر اسلام آباد پاکستان کے شمال مغربی قبائلی علاقوں پر افغانستان کے دیرینہ دعوؤںکے ساتھ خاموشی اور امن لا سکتا ہے‘ اس بات کا امکان موجود ہے کہ پاکستان اپنی علاقائی اتحاد کو آگے بڑھا ئے گا‘ اپنے حفاظتی اثاثوں کو ہندوستان کی طرف منتقل کرے گا۔ مودی کے نزدیک‘ جنوبی ایشیاء میں طاقت کا توازن برقرار رکھنے کیلئے‘ اگر پاکستان ‘افغانستان کے ساتھ اچھے تعلقات میں فائدہ اٹھاتا ہے‘ تو مقبوضہ کشمیر میں ہندوستانی فوائد کی ضرورت ہے‘لیکن ہندوستان کی علاقائی طاقت کو لاحق خطرات سے بچنے کے علاوہ‘ مودی کومقبوضہ کشمیر کو جذب کرنے کی ایک اور تحریک تھی‘ ایک ٹھنڈی ہوتی معیشت میں ترقی کا مظاہرہ کرنا‘ دیہی مانگ میں کمی‘ عوامی اخراجات میں کمی‘ اور بینکاری کے بحران نے ملک کی 2.6کھرب ڈالر کی معیشت کو چوٹ پہنچائی ہے۔ فروری میںمودی‘ جو اس وقت انتخابات میں حصہ لے رہے تھے‘ الیکشن سے قبل اپنی گرفت مضبوط کرنیکی امید میں‘ پاکستان کیخلاف سرحدوں پر کشیدہ صورتحال برپا کر کے اس میں کامیاب ہو ئے‘ یعنی مودی کے حربوں سے مئی میں بی جے پی نے زبردست کامیابی حاصل کی ‘ جس نے انہیں دوسری مدت اور ان کی پارٹی کو پارلیمنٹ میں بھاری اکثریت دی‘لیکن مودی اہم حقیقت کو آنکھیں بند کرکے تسلیم نہیں کر رہے‘ کشمیریوں کی خودمختاری‘ آزادی ہندوستان کے علاقائی قومی اتحاد کی راہ میں طویل عرصے سے بڑی رکاوٹ ہے۔
یہ مانا جاتا ہے کہ 1987ء میں اس وقت برسر اقتدار ہندوستانی نیشنل کانگریس پارٹی نے کشمیر کے اسمبلی انتخابات میں دھاندلی کی تھی۔ کانگریس نے بھارتی اتحاد کے نام پرمقبوضہ کشمیر کی خود مختاری کو ختم کرنے کیلئے بہت کچھ کیا‘ لیکن ہندو قوم پرست بی جے پی کے اقتدار میں اضافے نے اس عمل کو تیز کردیاہے۔ بھارت کی ہندو قوم پرست تحریک‘ جو ہندوستان کو ایک ہندو قوم کے طور پر متعین کرنے کی کوشش کرتی ہے‘ نمایاں طور پراقلیتوں سے مقابلہ کرنے کیلئے‘ ہندو سیاسی و مذہبی شخصیات کو تعیش دلاتی ہے۔ در حقیقت‘ بی جے پی نے ہندو قوم پرستی کا ہنرمند استعمال کیا‘ جس نے پارٹی کو تسلط قائم رکھا ہے‘ مودی کو کشمیر کی خودمختاری کو ختم کرنے کیلئے درکار سیاسی طور پرسپورٹ کی ہے۔مقبوضہ کشمیر جیسی ریاست میں ‘بی جے پی کو مستحکم کرنے کی کوشش کریں گے‘ جہاںمسلمانوں کی اکثریت ہے۔ ایسا کرنے کیلئے مودی ممکنہ طور پر غیر کشمیری ہندوؤں کی خطے میں نقل مکانی کی حوصلہ افزائی کریں گے‘ تاہم کامیابی کا انحصار اس علاقے کو پہلے محفوظ بنانے پر ہوگا۔ اگر اس خطے کی نئی حیثیت کچھ تین دہائیوں سے قبل شروع ہونے والی شورش کو ہوا دیتی ہے تو یہ آسان نہیں ہوگا۔ ادھرامریکہ کیلئے کشمیر ایک مختلف الجھن پیدا کیے ہوئے ہے۔ پاکستان افغانستان میں امریکی امن معاہدے میں مرکزی کردار ادا کر رہا ہے‘ لیکن نئی دہلی بھی امریکہ کا ایک اہم اقتصادی اور دفاعی شراکت دار ہے‘ اور اس نے روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہاہے کہ وہ امریکہ کو اسلام آباد کے ساتھ اپنے اندرونی تنازعہ سے دور رکھنا چاہتا ہے۔ دونوں ممالک کو راضی کرنے کی کوشش میں‘ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صورت حال میں ثالثی کی پیش کش کی‘ لیکن جی 7 اجلاس میں مودی سے حالیہ ملاقات کے بعد‘ ٹرمپ اپنی پیش کش سے دستبردار ہوئے۔کہا جا رہاہے کہ چین اور امریکہ کے کشمیر میں براہ راست مداخلت کا امکان نہیں ہے ۔
اب32روز گزر جانے کے باوجود کشمیر میں کرفیو نافذ ہے۔ اگر کرفیو ختم ہوتا ہے اور کشمیری عوام دوبارہ سڑکوں پر آتی ہے‘ تو یقینا بہت بڑا رد عمل سامنے آئے گا ۔ بھارت کیلئے کئی مسائل جنم لیتے ہیں۔مودی جلد بازی میں بہت غلط فیصلہ لے بیٹھا ہے۔