گزشتہ سال انہی دنوں میں‘بھارتی حکومت نے ٹی وی چینلز کی پرائیوٹ ایسو سی ایشن‘ نیوز براڈ کاسٹرز ایسو سی ایشن این بی اے کو ایک سرکلر میں ہدایت جاری کیںکہ وہ لفظ ''دلت ‘‘کا استعمال نہ کریں۔ اس کی جگہ وہ دلت برادری کے لیے ہندوستانی آئین میں لکھے ہوئے لفظ ''شیولڈ کاسٹ‘‘ کوزیراستعمال لائیں۔حکومت نے جواز بنایاکہ چند ماہ قبل ممبئی ہائی کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں کہا تھا کہ ''دلت ‘‘کے لیے آئین میں جس اصطلاح کا استعمال ہوا ہے‘ اس پر عمل کرنا چاہیے۔ بھارتی ٹی وی چینلز نے اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایااور دو ٹوک الفاظ میںکہا کہ ان ہدایت پر عمل کرنا مشکل ہو گا اور اسے عدالت میں چیلنج کیے جانیکی ضرورت ہے۔حقوق انسانی کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی حکومت کی طرف سے ٹی وی چینلز کو لفظ ''دلت ‘‘ نہ استعمال کرنے کی ہدایت کے سرکلر کو انڈیا میں دلتوں کی شناخت پر حملہ قرار دیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ ''دلت‘‘ محض ایک لفظ نہیں ‘یہ ایک مشترکہ شناخت کی اصطلاح ہے‘ جو انڈیا میں ایک برادری کیخلاف برتی گئی تفریق کی تاریخ کی عکاس ہے۔
بھارتی حکومت کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ کسی کو لفظ ''دلت ‘‘استعمال کرنے سے روکے۔ ہندوستان کی تاریخ پڑھیں تو ایک عجیب سی کیفیت طاری ہو تی ہے۔یہاں قبل از اسلام بہت سی قومیں آباد تھیں‘ لیکن جب آریائی قوم (جن کا تعلق یہود قوم سے ہے) ہندستان پر حملہ آور ہوئیں اور پورے ملک پر آہستہ آہستہ قابض ہوگئیں۔ آریاؤں نے یہاں کے اصل باشندوں کو اپنا ذہنی غلام بنا لیا۔ انہوں نے ہندو مذہب کو چار حصوں میں منقسم کیا ؛ برہمن ‘ ویش ‘ کھتری اور شودر (دلت)۔برہمن (ان کے بعض نظریات یہودیت سے اتنے قریب ہیں کہ فرق کرنا مشکل ہوجاتا ہے) خود کو سب سے اونچافرقہ تسلیم کرتی ہے‘ پھر ویش اور کھتری کا نمبر آتا ہے‘ لیکن شودر (دلت) قوم ان کے نزدیک سب سے نیچ قوم مانی جاتی ہے۔ اس وقت پورے ہندوستان میں 58 فیصدشودر قوم کی آبادی ہے‘ باقی خود ساختہ اعلیٰ ذات کا تسلط ہے‘ جو کہ پورے ملک پر حاکم بنی ہوئی ہے۔ان تینوں اعلیٰ ذات کے لوگوں نے مل کر شودر(دلت ) قوم پر وہ مظالم کے پہاڑ توڑے ‘ جن کی مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔اگر آپ ویدوں کے زمانے کا مطالعہ کریں تو اس کا بخوبی علم ہوگاکہ یہاں اُن کے ظلم و استبداد کے ذکر کی گنجائش نہیںہے۔
آٹھویں صدی عیسوی (محمدابن قاسم کے حملے کے بعد) سے مسلمانوں کی آمد و رفت کا سلسلہ ہندوستان میں شروع ہوا۔ اسلام کی اشاعت کا باقاعدہ نظام وجود میں آیا اور ایک بڑی تعداد اسلام کی پناہ میں آگئی‘ پھرانیسویں عیسوی تک ہندوستان مسلمانوں کا ملک مانا جاتا رہا۔اسلام پھیلنے کے بعد اگرچہ شودر(دلت) طبقے پر مظالم کم ہوئے‘ لیکن بڑی حد تک اعلیٰ ذات کے لوگ مسلسل شودر(دلت) طبقے کو اپنا تخت ِ مشق بنائے رکھنے میں کامیاب رہے‘یہاں تک کہ اگر کسی شودر کی بیٹی کی شادی ہوتی تو پہلی رات لڑکی کو گاؤں کے زمیں دار کے یہاں گزارنہ ضروری تھا‘ جبکہ شودر طبقے کو مندر میں قدم رکھنا تو درکنار‘ کسی اُونچی ذات والے کو چھولینا بھی گناہ سمجھا جاتا تھا۔یہ عمل ابھی تک رکا نہیں‘ بلکہ جاری و ساری ہے۔اُ ونچی ذات کے ساتھ اُٹھنے بیٹھنے کا خیال بھی شودر نہیں کر سکتے۔ان کی آبادی گاؤں کے دکھن کی طرف اس لیے بسائی جاتی ہے ‘کیونکہ عام طور پر اُس طرف سے ہوائیں نہیں چلتیں اور اس طرح اعلیٰ ذات کے لوگ شودر طبقہ کی بدبختی اور ذلت سے محفوظ رہتے ۔
مگر یہ سلسلہ کب تک چلتا‘آخر ہندوستان میں مظلوم قوم نے اپنے حق کی آوازبلند کرنا شروع کردی ہے۔اب نہ وہ وقت رہا ‘نہ وہ حالات ‘دنیا بدل چکی ۔بھارت میں جہاں دفاتر اور تعلیمی اداروں میں ذات پات کی بنیاد پر امتیازی رویے کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں‘ وہیں ''دلت‘‘ نوجوان اب تعصبی روایات کو چیلنج بھی کر رہے ہیں۔رواں سال گجرات کے راج کوٹ ضلع میں ایک اجتماعی شادی میں دلت لڑکے گھوڑے پر سوار ہو کر اپنی بارات لائے جو کہ ابھی تک صرف اعلیٰ ذات کے دلہا کا حق سمجھا جاتا تھا‘ یعنی دلت ذات کے دلہا کو اپنی بارات گھوڑے پر لانے کی اجازت بھی نہیں تھی۔چھوٹی ہی سہی‘ لیکن اپنے آپ میں یہ اہم بڑی تبدیلی ہے؛ حالانکہ اس واقعے کے بعد علاقے میں کشیدہ صورتحال بھی پیدا ہوئی‘ تاہم پولیس نے حالات پر قابو پا لیا۔دلتوں اور غیر دلت فرقوں کے درمیان کشیدگی روز بروزبڑھتی جا رہی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں زیادہ تر ''دلت‘‘ تعلیم یافتہ ہیں ۔
دراصل ابھی تک اقتدار کی تبدیلی طاقت کے بل پر ہوتی تھی‘ جس میں عام آدمی محض تما شائی ہوتا تھا۔ جب کبھی فاتح فوج کا کوئی دستہ اس کی بستی اور آبادی کو تخت و تاراج کر تا ہوا گزرتا تو اسے محسوس ہوتا کہ شاید تبدیلی اقتدار ہوگیا ۔حکومت اور عوام کا رشتہ لٹیر وں کے ہاتھوں میں نہتے گروہ کا رشتہ تھا۔عوام کو لوٹنا‘ کھسوٹنا اور جس کی عزت و آبرو کھیتی اور باغات کو تاراج کرنا حکمراں اور فاتح کا پیدائشی حق تھا اور ذلت و مظلومی دلت قوم کی پیدائشی تقدیر‘لیکن جب سے علم و شعور کابول بالاہوا ہے اور یہ باور کیا جانے لگا کہ اقتدار بندوق کی نلی سے نہیں‘ عوام کے ووٹ سے حاصل ہوتا ہے اور عام آدمی کوبھی جینے کاحق حاصل ہے۔ اور یہ کہ اسے بھی بنیادی حقوق ملنے چاہئیں۔ عام آدمی کی اہمیت اور طاقت میں ناقابل ِیقین اضافہ ہوا۔ اب اس کے مسائل‘ ضروریات‘ امنگیں اور آرزوئیں‘ اس کا دکھ اس کے آفات اس کی خوشیاں اور اس کے حالات توجہ اور دلچسپی کی چیزیں بن گئی ہیں۔
الغرض ذمہ دار اور جوابدہ ہونے کا دور شروع ہوچکا ‘ کیونکہ مظلوم قومیں اب اپنا حق مانگنا شروع ہو گئیں ہیں۔