اسرائیل اور لبنانی تنظیم حزب اللہ کے درمیان جھڑپیں بے شک ختم ہوچکی یا نہیں‘ لیکن مستقبل میں تباہ کن جنگ کے اشارے اب بھی موجود ہیں۔جنگی ماہرین کا کہنا ہے کہ دونوں فریقوں کے مفاد میں ہے کہ وہ اس جھگڑے کو یہیں روک دیں۔یہ بھی ایک کڑوا سچ ہے کہ کوئی بھی فریق مکمل جنگ نہیں چاہتا۔ عالمی میڈیا کے مطابق ‘ سرحدوں کے پار ‘ حملوں کا تبادلہ اسرائیل کی جانب سے بیروت کے علاقہ دحیہ میں حزب اللہ کے ہیڈ کوارٹر پر اسرائیلی فضائی حملے کا ردعمل تھا۔اسرائیل اور حزب اللہ کے مابین 2006 ء میں ہونے والی جنگ کے بعد سے لبنان کے دار الحکومت پر اسرائیل کا یہ پہلا حملہ تھا۔
اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان رواں ماہ کے آغاز میں فوجی محاذ آرائی دراصل محدود پیمانے پر ایک سائیڈ شو تھا۔حقیقی تنازع تو سرحد پار شام میں جاری ہے‘ اس محدود محاذ آرائی کی بین الاقوامی میڈیا میں شہ سرخیاں بنیں۔ حزب اللہ نے مبینہ طورپر اسرائیل کی ایک بکتر بند فوجی گاڑی کو ٹینک شکن گائیڈڈ میزائل سے نشانہ بنایا اوراس حملے میں اس گاڑی میں سوار فوجی ہلاک اور زخمی ہوگئے تھے ‘مگر اسرائیل نے اپنے کسی فوجی کی ہلاکت یا زخمی ہونے کی تردید کی تھی۔رد عمل کے طور پر اسرائیلی فوج نے لبنان پر توپ خانے سے بھاری گولہ باری جاری رکھی۔کہا جاتا ہے کہ اسرائیل نے ایک سو کے لگ بھگ گولے داغے گئے‘ مختصر جھڑپ کا دورانیہ دو گھنٹے رہا تھا۔ یہ جھڑپ قواعد وضوابط کے مطابق ہی ہوئی تھی اور بظاہر فریقین کا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔
حزب اللہ کی جانب سے گاڑی پر حملہ متوقع تھا۔اس نے یہ کارروائی اسرائیل کے ایک فضائی حملے کے جواب میں کی تھی۔اسرائیل نے شام کے قصبے اقربا میںایک نجی تنظیم کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا تھا۔اس حملے میں اس تنظیم کے متعدد ارکان جاں بحق ہوئے تھے‘ ان میں حزب اللہ کے ڈرون ٹیکنالوجی کے دو تربیت یافتہ ماہرین بھی شامل تھے۔حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل حسن نصراللہ نے خبردار کیا تھا کہ ان کی تنظیم اس کا جواب ضرور دے گی‘ مگر صحیح وقت اور درست جگہ کا تعین کرنے کے بعد۔انہوں نے یہ واضح کیا تھا کہ وہ اسے مکمل جنگ میں تبدیل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ان کے نائب نعیم قاسم کا بعد میں ایک بیان بھی سامنے آیاکہ ''میں اس بات کو مسترد کرتا ہوں کہ ماحول ایک جنگ کا ہے‘ یہ تو صرف ایک حملے کا ردعمل تھا۔‘‘اس میںکوئی دو رائے نہیں کہ حزب اللہ کے علاوہ اسرائیل بھی مکمل پیمانے پر جنگ نہیں چاہتا ۔حزب اللہ کے حملے کے جواب میں اسرائیل کا محدود ردعمل اوربالاصرار یہ کہنا کہ اس میں کوئی ہلاکتیں نہیں ہوئی ہیں‘اس بات کا مظہر ہے کہ نہ وہ لبنان میں حزب اللہ سے جنگ چاہتا ہے اور نہ یہ اس کی ترجیحات میں شامل ہے۔
ایسی خبریں بھی زیر گردش رہیں‘مگریہ غیر مصدقہ رپورٹس ہیں ‘جو منظرعام پر آئی ہیں کہ اسرائیل نے حزب اللہ کو دھوکا دینے کیلئے پتلوں اور ڈمی فوجیوں کو استعمال کیا ۔ حزب اللہ کے حملے کا ہدف بننے والی بکتربند گاڑی میں پتلے اور ڈمی فوجی موجود تھے۔شاید اس تنظیم کو عوامی سطح پر اپنا رکھ رکھاؤ برقرار رکھنے کے لیے ایسا موقع فراہم کیا گیا ‘ کیونکہ وہ اسرائیلی حملے کا انتقام لینا چاہتی تھی‘مگر میرے خیال میں یہ صرف باتیں ہیں۔حسن نصراللہ کی طرح نیتن یاہونے بھی جنگ کی زبان بولی اور کہا کہ ''اگر کوئی تمہیں قتل کرنے کے لیے اٹھے تو اس کو اس کی عمل سے پہلے ہی مار دو۔‘‘لیکن حزب اللہ کی طرح اسرائیل کی کارروائیوں سے یہ لگتا ہے کہ وہ لبنان میں جنگ نہیں چاہتا ہے۔دونوں فریق ہی لبنان میں ایک دوسرے کے مدمقابل آنے میں متردد ہیں‘ کیونکہ حقیقی لڑائی تو شام میں جاری ہے۔داخلی عوامل بھی حزب اللہ پر اثر انداز ہوئے ہیں‘ اس تنظیم کو مقامی حمایت حاصل نہیں اور لبنان کی زبوں حال اقتصادی حالت بھی حزب اللہ کی کسی نئی فوجی مہم جوئی شروع کرنے کی صلاحیت میں آڑے آئی ہے۔حزب اللہ کو اس کے مختلف مالیاتی اداروں پر پابندیوں کی وجہ سے زیادہ اقتصادی جدوجہد کرنا پڑرہی ہے ‘سماجی خدمات کے اپنے نیٹ ورک کو فنڈز منتقل کرنا بھی مشکل ہوچکا ہے ۔ان داخلی عوامل کو اس حقیقت سے بھی مہمیز ملی ہے کہ حزب اللہ خطے بھر اور بالخصوص شام میں موجود ہے۔ حزب اللہ کے ہزاروں پُرعزم فوجی موجود ہیں‘ جو بشارالاسد رجیم کے شانہ بشانہ باغی گروپوں سے لڑرہے ہیں۔ شام میں ان جنگی مصروفیات کے علاوہ حزب اللہ عراق میں بھی دوسری تنظیموں کیساتھ فعال ہے۔ حزب اللہ کی علاقائی مصروفیات اور بالخصوص شام میں جاری جنگ میں الجھ کر رہ جانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ لبنان میں اسرائیل کے ساتھ فیصلہ کن تصادم کے لیے تیارنہیں ہے۔
شامی جنگ کے ابتدائی برسوں کے دوران ‘ اسرائیل شام میں ایران کے اثاثوں کو نشانہ بنانے کی مسلسل تردید کرتا رہا تھا‘ لیکن ایک سال قبل ہی اس کے اس محتاط رویے میں اچانک تبدیلی رونما ہوئی اور ایران کے سابق چیف آف آرمی سٹاف لیفٹیننٹ جنرل گادی ایزینکو نے کھلے عام یہ تسلیم کیا تھا کہ ان کی فضائیہ نے شام میں ہزاروں اہداف پر حملے کیے تھے۔یہ تبدیلی شام میں ایران کے بڑھتے ہوئے رسوخ کے بارے میں اسرائیل کے خوف وخدشات کی عکاس تھی۔ایران کے اتحادی روس نے اسرائیل کے فضائی حملوں کو روکنے کے لیے اپنے فضائی دفاعی نظام کو ابھی تک استعمال نہیں کیا۔اس سے یہ لگتا ہے کہ شاید اس نے خود ہی ان حملوں کی منظوری دی ہے‘ تاکہ شام میں ایرانی اثرات کا خاتمہ کیا جاسکے۔اسرائیل کی شام میں مداخلت اس کی علاقائی حکمت عملی کا حصہ ہے۔وہ حزب اللہ کے ایران سے بذریعہ شام اور عراق بلا تعطل روابط کے مضمرات کو بھی تسلیم کرتا ہے۔حزب اللہ کو ہتھیار اور طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائلوں کا انبار لگانے کا موقع ملا ہے۔ لبنان اس وقت ایک بڑے تنازع کا ایک سائیڈ شو ہے‘ لیکن یہ ملک جنگ کے مرکزی سٹیج میں تبدیل ہوسکتا ہے۔