جنت نظیروادی مقبوضہ کشمیر کے موجودہ حالات وواقعات ‘عالمی منظر نامے پرچھائے ہوئے ہیں۔ اس بابت ہر ذی شعور سمجھ سکتا ہے کہ مسئلہ کشمیر‘ شمشیر سے حل نہیں ہو گا۔اس میںکوئی دو رائے نہیں کہ مسئلہ کشمیر‘ پاکستان کی سفارتی جارحانہ پالیسی کی بنا پر دنیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔
مسئلہ کشمیر کے پس منظر میں جائیں‘ تونہرو کے متعدد بیانات اور خطابات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ بھارت نے ہمیشہ ہی کشمیر پر حق خود ارایت کو تسلیم کیا ۔ یہ بھی مانا کہ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے‘ جس کی حیثیت کا فیصلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے ذریعہ ہونا باقی ہے۔
لیکن اب‘ اچانک انتہا پسند نریندر مودی نے آئین کی شق 370 ختم کرکے کشمیریوں کی خصوصی حیثیت ہی ختم کر دی۔ ظاہر ہے کہ اس کے دور رس نتائج برآمد ہوں گے۔ مقبوضہ وادی میں وہ طبقات جو دو قومی نظریہ کے مخالف تھے‘ وہ بھی پچھتا رہے ہیں۔ اب بھی بھارت کے پاس وقت ہے کہ وہ اس مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے حل کرے اور خطے کو ترقی اور امن کے راستے پر گامزن کرے۔ عالمی رہنماؤں اور میڈیا کی نظریں اس ایشو پر لگی ہیں۔دنیا بھر سے بھارتی ظلم و بربریت کی مذمت جاری ہے ۔
یقینا یہ ہماری سفارتی کامیابی ہے کہ رکن امریکی کانگریس شیلا جیکسن لی ‘نے بھارتی اقدامات کی مذمت کرتے ہوا کہا کہ ''جموں وکشمیرکی حیثیت کی تبدیلی کے فیصلے سے خطرناک بحران نے جنم لیا ‘ بھارتی فوج نے نہتے کشمیریوں کی زندگی اجیرن کردی ہے‘ مسئلہ کشمیر کے باعث پاکستان اور بھارت نیوکلیئر جنگ کے دہانے پر ہیں‘ جموں وکشمیر کی حیثیت کی تبدیلی کے فیصلے سے خطرناک بحران پیدا ہوا ہے‘‘۔ان کا کہنا کہ بھارت میں حراستی کیمپ قائم کئے جارہے ہیں‘ امریکا اور اقوام متحدہ‘ کشمیر میں بحران کے خاتمے میں موثر کردار ادا کریں۔ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بحالی فوری یقینی بنائی جائے۔رکن امریکی کانگریس نے مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کے حل پر بھی زور دیا۔
دوسری جانب گزشتہ دنوں برسلز میں مسئلہ کشمیر پر یورپی پارلیمنٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ یورپی پارلیمنٹ میں 12 سال بعد مسئلہ کشمیر پر بحث کی گئی ‘جس میں ارکان نے مسئلہ کشمیر پر بحث کے ساتھ مقبوضہ وادی میں بھارتی جارحیت‘ انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور ذرائع مواصلات کی بندش کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی۔یورپی یونین کی خارجہ امور کی سر براہ فیڈریکا موغیرینی کا بیان وزیر توپرائینن نے پڑھ کر سنایا‘ جس میں کہا گیا کہ بھارت کو بتا دیا گیا کہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق بحال کرے‘ سیاسی کارکن رہا کیے جائیں‘ بھارت اور پاکستان مسئلہ کشمیر بات چیت سے حل کریں۔
چیئرپرسن انسانی حقوق کمیٹی ماریا ایرینا نے کہا کہ مقبوضہ کشمیرمیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہورہی ہیں‘ وہاں 10 لاکھ فوج موجود ہے۔بحث کے دوران کئی ارکان نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال قیامت خیز قرار دی ‘جبکہ لبرل پارٹی کے ارکان نے بھی بھارتی اقدامات غیرقانونی قرار دئیے۔رکن ِپارلیمنٹ محمد شفق نے یورپ پر زور دیاکہ وہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کیلئے کھڑا ہو‘ پابندیاں اٹھائی جائیں ‘جس پر یورپ کو شدید تحفظات ہیں۔ادھریورپی پارلیمنٹ میں بھی مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کو تشویشناک قرار دیا گیا۔صدر آزاد جموں وکشمیر سے 22 رکنی ترک صحافیوں کے وفد نے ملاقات کی۔ صدر آزاد کشمیر نے وفد کومقبوضہ کشمیرکی صورت حال سے آگاہ کیا۔
پاکستان کی جغرافیائی حیثیت ایسی ہے کہ یہ پانچ ارب انسانوں کو ملانے والا ملک ہے۔ خود بھارت ‘پاکستان کے ذریعے شرق اوسط اور وسط ایشائی ممالک تک رسائی ممکن بنا سکتا ہے۔ تیل اور گیس کے ذخائر تک پہنچ سکتا ہے ‘ اپنے عوام کی خدمت کرسکتا ہے ‘ایسا صرف تب ہی ممکن ہے ‘ جب تمام حل طلب مسائل ‘ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر حل کیے جائیں ۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر کی حیثیت تبدیل کرکے پوری وادی کو آگ اور خون کی دہلیز پر کھڑا کر دیا ہے۔ پوری وادی دو ہفتوں سے کرفیو کی حالت میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ انٹرنیٹ‘ موبائل سروس اور ٹیلی ویژن سروس تک معطل ہے۔ عوام اشیاء خور و نوش تک نہیں خرید سکتے‘ جبکہ بی جے پی کی جانب سے اس فیصلے پر ایسے ردعمل دکھایا جا رہا ہے‘ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔اب تو بھارتی وزیر دفاع ایٹمی جنگ کی دھمکیاں دے رہا ہے‘ جس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ کشمیر ایٹمی فلیش پوائنٹ ہے‘ جس سے پانچ ارب انسانوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔
مسئلہ کشمیرکو اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہیے۔پاکستان ستر سال سے اپنے موقف پر قائم ہے۔ مودی نے ڈھٹائی کے ساتھ مقبوضہ کشمیر کو اپنا اندرونی مسئلہ بنا دیا اور اس سے کوئی پوچھنے والا ہی نہیں۔ ظاہر ہے کہ امریکا نے خود یہی کام فلسطین میں کیا‘ تو پوچھے گا کون؟ سچ کہتے ہیں کہ مشکل وقت میں حقیقی دوست اور دشمن کی پہچان ہوتی ہے۔ پتا چلتا ہے کہ کون مشکل وقت میں آپ کے ساتھ کھڑا ہے اور کون فقط زبانی جمع خرچ کر رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتحال سے واضح ہوگیا کہ کون کس کے ساتھ کھڑا ہے اور خطے میں پاکستان کے حقیقی دوست ممالک کون ہیں۔تل ابیب‘ واشنگٹن اور نئی دلی سٹریٹجک اتحادی ہیں۔ کشمیر پر چین‘ روس‘ ترکی ‘سعودی عرب اور ایران کے موقف نے پاکستان پر واضح کر دیا کہ وہ ہر مشکل کی گھڑی میں پاکستان کے ساتھ ہیں۔
اقوام عالم میں اٹھنے والی یہ آوازیں اب یقینا رائیگاں نہیں جائیں گی اور بھارت کو عالمی تنہائی سے بچنے کیلئے کشمیریوں کا حق خودارادیت طوعاً وکرہاً تسلیم کرنا ہوگا۔ اگر ایسا نہیں ہوتاتو بھارت خود عالمی برادری میں راندہ درگاہ ہو جائے گا۔ آج پاکستان کو اپنے ٹھوس موقف اور فعال کردار کے باعث کشمیر کاز میں کامیابی حاصل ہو رہی ہے ‘جو درحقیقت کشمیریوں کی بھارتی تسلط سے آزادی کی منزل قریب آنے کی نوید ہے۔ بھارت نے اب بھی ہوش کے ناخن نہ لئے تو سوویت یونین کی طرح اس کے حصے ہونے میںبھی دیر نہیں لگے گی۔