جغرافیائی قافلوں میں شریک چین ‘ امریکہ اور اسرائیل کے مابین دائمی تنازع بننے کا خطرہ موجودہے۔ امریکہ اور اسرائیل اتحاد کو مضبوط بنانے کیلئے دو طرفہ تعاون جاری ہے۔ اس کے تحفظ اور حفاظت کیلئے دونوں ممالک کے رہنماؤں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے‘ لیکن ایک بار جب جذبات ٹھنڈے ہوجائیں ‘تو یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ اسرائیل کا یہودی ریاست کا تاثر دینااور دو سالہ اولین مجلس قانون سازوں کو رکھنے کا فیصلہ‘ واقعی ڈیموکریٹک پارٹی کی طویل اور قابل احترام اسرائیل روایت کیلئے سنگین خطرہ ہے۔
یہاں یہ بات اہم ہے کہ امریکہ اور اسرائیل چین کی ابھرتی ہوئی طاقت کو کس طرح مخاطب کرتے ہیں؟ وسیع ترمفادات میںیا توبڑے خطرے یا عظیم وعدے کا سبب بن سکتے ہیں۔ تصویر کے دونوں رخ کو دیکھا جائے ‘تو الگ ہی پہلو ملیں گے۔ ایک رخ چین کے دائمی تنازع بننے کے خطرے کو کم کرنے کیلئے مذاکرات کیے جائیں ‘ جبکہ دوسرا چین کے ساتھ معاملات طے کرنے کا چیلنج امریکی اسرائیل سٹریٹجک تعاون کو فروغ دے سکتا ہے‘ جو پہلے ہی گہرے اور وسعت بخش ہیں اور ایک نئی سطح تک پہنچ سکتے ہیں ۔
چین کے بارے میں فوری طور پر کشیدگی امریکہ اور چین کی پالیسی میں ڈرامائی تبدیلی سے پیدا کر سکتی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے دسمبرمیں اپنی قومی سلامتی کی پہلی حکمت عملی جاری کرتے وقت اشارہ دیا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی صدر بننے سے قبل کئی دہائیوںسے‘ واشنگٹن اس خیال کے تحت کام جاری رکھے ہوئے ہے اور بیجنگ کو پیش کش بھی کی گئی ‘ لیکن کئی سال کی شکار معاشی پالیسیاں‘ جنوب اور مشرقی چین کے سمندروں میں چین کے خلاف عسکریت پسندی کو بڑھاوا دینے نے اس خواب کو جھوٹ میں بدل دیا ہے۔ یقینا چینی کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی) کا اپنا ایک خواب ہے‘ جس میں جمہوریت اور آزاد منڈیوں پر مبنی امریکہ کی زیر قیادت آرڈر میں جونیئر پارٹنر بننا شامل نہیں ۔
چین کی معیشت پر مضبوط گرفت جیسی حقیقت کو ٹرمپ انتظامیہ نے پہچان لیا اور اس کے مطابق‘ امریکی پالیسی کو دوبارہ سنوارنے کیلئے طویل التواء جیسے اقدام اٹھارہی ہے۔ امریکی قومی سلامتی کے ماہرین حالیہ حکمت عملی ‘تاریخ سے اخذ نتیجے دیکھ چکے ہیں ۔ چین ایک ذمہ دار سٹیک ہولڈر کی حیثیت اورگیم سے باہر تھا۔ اب‘ ایک سٹریٹجک مدمقابل کی حیثیت سے سامنے کھڑا ہے۔ سیاسی پولرائزیشن کے دور میں‘ اب کانگریس میں نمایاں طور پر بڑی بڑی جماعتیں چین کے بارے میں انتظامیہ کے مجموعی نظریہ کی حمایت کررہی ہیں ؛اگرچہ واشنگٹن نے پالیسی کبھی کھل کرواضع نہیں کی‘ لیکن اس کی وسیع شکلیں نظر آرہی ہیں۔ صرف تجارت اور ٹیکنالوجی پر نہیں‘ بلکہ پوری فوج‘ انٹلی جنس‘ سفارتی اور نظریاتی دائرے بھی اس میں شامل ہیں؛ اگرچہ اس بڑھتے ہوئے جغرافیائی سیاسی محاذ آرائی کے طویل مدتی اثرات کو پوری طرح سے سمجھنا مشکل ہے‘ لیکن اس احساس سے منہ بھی نہیں موڑا جا سکتا کہ ہم نا صرف سیارے کی دو سب سے طاقتور اقوام کے ایک سٹریٹجک تجزیہ یا ڈیکوپلنگ کے درمیان ہیں‘ بلکہ دو سب سے بڑی معیشتوں کی مرہون منت ہیں‘عالمی سطح پر ان کے فیصلوں کا اثر پڑتا ہے ۔
یہ حیرت کی بات نہیںکہ امریکی پالیسی میں تبدیلی اور تیز رفتاری نے اسرائیل سمیت کئی امریکی اتحادیوں کو حیرت میں ڈالا ہوا ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے کئی برسوں سے چین کے ساتھ تعلقات میں توسیع ‘ خصوصا ًمعاشی تعاون کو ترجیح دی ہے۔ یہ گہرے تعلقات دو اہم طریقوں سے ظاہر ہوئے ہیں۔ پہلا اسرائیل کی غیر معمولی متحرک ہائی ٹیک شعبے میں چینی سرمایہ کاری میں ایک بڑا اضافہ ‘ جس میں اسرائیلی سٹارٹ اپ کمپنیوں میں براہ راست سرمایہ کاری کی گئی ‘ دوسرا گھریلواستعمال کی ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کرنے والے اسرائیلی منصوبے کیپٹل فرموں میں شرکت‘ اور تحقیق و ترقی کے قیام شامل ہیں۔
اسرائیل میں مراکزقائم کرنے‘ مارچ 2017 میں نیتن یاہو نے فخر کے ساتھ اسرائیل اور چین کے مابین ''جامع جدت طرازی کی شراکت داری‘‘ بنانے کا اعلان کیا اور حال ہی میں اکتوبر 2018ء کی طرح‘ چین کے بااثر نائب صدر وانگ قیشان‘ انوویشن تعاون سے متعلق چین‘اسرائیل مشترکہ کمیٹی میں حصہ لینے کیلئے اسرائیل تشریف لے گئے؛اگرچہ درست اعداد و شمار تک پہنچنا مشکل ہے۔مختلف اندازوں کے مطابق‘ پچھلے کئی برسوں میں‘ چینی پیسے نے اسرائیل کی عروج پر پہنچنے والی سویلین ٹیک صنعت کے 12 سے 25 فیصد کے درمیان کردار ادا کیا ہے‘ جس میں اربوں ڈالر اور ممکنہ طور پر سیکڑوں کمپنیوں کی شراکت داری ہے۔ سرمایہ کاروں میں چین کی سب سے بڑی فرمز شامل ہیں‘ جن میں ہواوے‘ زیڈ ٹی ای‘ علی بابا‘ ٹینسنٹ‘ بیدو‘ اور کوانگ چی شامل ہیں۔ اسرائیل میں چینی سرمایہ کاری کے اہداف میں مصنوعی ذہانت سے لے کر سائبرسکیورٹی‘ روبوٹکس‘ خودمختار گاڑیاں اور اس سے آگے تک کی جدید ٹیکنالوجی کا حصول ہے۔اسرائیل میں چینی کاروائیوں کی دوسری مرکزی لائن بنیادی ڈھانچے کے شعبے میں ہے۔ کچھ عرصہ قبل اسرائیل چین کی بیلٹ اینڈ روڈ جیسے منصوبے میں ایک پرجوش شراکت داربننے کا عندیہ بھی دے چکا ‘ جو چینیوں کی زیرقیادت بندرگاہوں‘ ریلوے‘ سڑکوں‘ پائپ لائنوں‘ انرجی گرڈز اور دیگر متعلقہ انفراسٹرکچر پروجیکٹس کے سیکڑوں بلین ڈالر کا ایک پرجوش منصوبہ ہے۔ 2017ء کے چین کے دورے کے دوران نیتن یاہو نے کہاتھا ''اسرائیل بطور فریق شاہراہ ریشم اقتصادی بیلٹ اور اکیسویں صدی کی میری ٹائم سلک روڈ کے فریم ورک کے تحت بنیادی ڈھانچے اور دیگر تعاون میں فعال طور پر حصہ لینے کیلئے تیار ہے‘‘۔
کم از کم چار ارب بلین ڈالر کے منصوبوں پر کام جاری ہے۔ چینی سرکاری کمپنیوں نے اسرائیل کی دو بحیرہ روم کی بندرگاہوں‘ حائفہ اور اشدوڈ میں سہولیات کی تعمیر میں بہت زیادہ مصروف عمل ہیں۔ حائفہ میں‘ ان کمپنیوں میں سے ایک بندرگاہ کے کچھ حصوں کو 25 سال تک کام کرے گی۔ یہ اسرائیل کے اہم بحری اڈے سے نسبتاً قربت میں ہے‘ جو امریکی چھٹے بیڑے کے جہازوں کیلئے باقاعدہ سٹاپ ہے۔ اشدود میں‘ چینی کی اہم فرم ایک ایسی کمپنی کا حصہ ہے‘ جس نے چین کیلئے کام کیا ہے‘اس میں بحیرہ جنوبی چین بھی شامل ہے۔ چینی سرکاری کمپنیوں سے وابستہ دوسرے بڑے منصوبوں میں تل ابیب کا لائٹ ریل سسٹم بھی شامل ہے۔