نصاب تعلیم وہ تدریسی عمل ہے‘ جس کے دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے تعلیمی ادارے نئی نسل کو ذہنی‘ فکری‘ علمی اور عملی طور پر تیار کرتے ہیں۔کوئی دو رائے نہیں کہ نصاب تعلیم کا انحصار ریاست کی قومی تعلیمی پالیسی پر ہوتا ہے‘ جس میں مستقبل کے اہداف کا تعین کیا جاتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ جوں جوں دیگر ریاستی امور و معاملات تغیرات سے گزرتے ہیں‘وہیں تعلیمی اہداف بھی بدلتے رہتے ہیں۔نصاب تعلیم میں قومی اہداف سے مشروط ہونے کی وجہ سے وقتاً فوقتاً تبدیلیوں کی ضرورت بھی پڑتی ہے۔پاکستان میں یکساں نصاب تعلیم نہ ہونے سے پیدا ہونے والے طبقاتی امتیازات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ ہمارے ملک میں کئی نصاب ہائے تعلیم پڑھائے جا رہے ہیں‘ جن سے کئی سوالات پیدا ہوتے ہیں‘کیا یہ نصاب خطے کی ثقافت‘ تہذیب‘ تاریخ‘ سماجی ضرورتوں پر پورا اترتے ہیں؟ کیا نصاب ہائے تعلیم سے روشن فکری اور انسان دوستی کو بڑھاوا ملتا ہے؟ کیا موجودہ نصاب طبقاتی امتیاز تو پیدا نہیں کر رہا؟کیا ملک کے ہر بچے کے لیے یکساں نصاب تعلیم متعین ہے ؟کیا ہمارا نصاب تعلیم ترقی یافتہ ممالک کے نصاب سے مماثلت رکھتا ہے ؟یقینا ان سوالات کے جوابات ڈھونڈنے کی اشد ضرورت ہے ‘ہم کب تک آنکھیں بند کیے یونہی چلتے رہیں گے ؟
پاکستان جغرافیائی طور پرجس خطے میں قائم ہے‘ انگریز ہی نہیں‘ بلکہ مغلیہ دور سے پسماندہ چلا آرہا ہے۔ قیام پاکستان کے وقت ملک کے مغربی حصے میں خواندگی کی شرح صرف 8.5فیصد تھی‘جو اربن علاقوں سے ہجرت کر کے آنے والوں کی وجہ سے14.7فیصد ہوگئی تھی‘ لیکن اس شرح میں اگلے چار برس‘ یعنی1951ء تک کوئی تبدیلی نہیں آئی؛البتہ مشرقی حصے میں خواندگی کی شرح مغربی حصے کے مقابل قدرے بہتر تھی۔1951ء میں ہونے والی تعلیمی کانفرنس میں پہلی بار اہداف کا تعین کرنے کی کوشش کی گئی اور ایک چھ سالہ منصوبہ (1951-57ئ) ترتیب دیا گیا۔ اس وقت صورتحال یہ تھی کہ 4سے10برس عمر کے بچوں کی دو تہائی اکثریت سکولوں سے باہر تھی۔ کانفرنس میںاعلیٰ سطحوں پر برطانوی دور کے نصاب کو جاری رکھنے کا فیصلہ بھی ہوا۔پاکستان کا المیہ ہمیشہ سے یہی رہا ہے ‘ جہاں صاحب ِ بصیرت سیاستدانوں کے فقدان کے باعث مختلف ریاستی پالیسیوں پر بیوروکریسی حاوی ہوتی رہی‘ وہیں تعلیم کے شعبے میں اہل ماہرین تعلیم کی عدم موجودگی کے باعث تعلیمی پالیسیوں کی تشکیل پر بھی بیوروکریسی ہی حاوی چلی آ رہی ہے۔
کیا صوبے کے دارالخلافہ میں بیٹھ کر سیکرٹری لیول کے آفیسر دور دراز کے گاؤں کے سکولوں کے مسائل سے بخوبی آگاہ ہوں گے؟سکولوں کے مسائل اور ان کا تدارک ہو پائے گا ؟ جہاں ہم برابری کی بات کرتے ہیں‘ ترقی پذیر ممالک کی صف میںآگے آنے کی بات کرتے ہیں ‘کبھی سوچا ہی نہیں‘ ہماری بنیادیں پختہ نہیں۔برطانیہ میں گورنمنٹ سکولز کالجز کے علاوہ دیگر مہنگے تعلیمی ادارے موجود ہیں ‘مگر اہم بات یہ ہے کہ وہاں نصاب ایک ہے ۔غریب کا بیٹا ہو یا امیر کا ‘سرکاری سکول کا طالبعلم ہو یا کسی مہنگے پرائیوٹ سکول میں زیر تعلیم بچہ سبھی کے لیے نصاب تعلیم یکساں ہے ۔ نئی حکو مت کی تشکیل اور وزیر اعظم کی تقریر کے بعد یکساں نصاب تعلیم کا خوش نما نعرہ بلند ہوا۔کچھ عرصہ نئی بحث جاری رہی ‘ بد قسمتی سے یہ معاملہ بھی کہیں گم ہو گیا۔
موجودہ حکومت نے بھی قومی نصاب کونسل کی تشکیل میں وہی روایتی طریقہ کار اختیار کیا‘ جو اس سے قبل کونسلزاور اداروں کے قیام کے لئے ماضی کی حکومتیں اپناتی تھیں۔ کیا یہ لوگ جو سماج کی ارتقائی ضرورتوں اور تعمیر و ترقی‘ تحقیق کو ریاست کی ضرورت کے تناظر میں دیکھتے ہوں یا اپنے عقیدے کو حتمی حق قرار دیتے ہوں ‘ انسانی بنیادوں پر سماج کی تشکیل کی بنیادی ضرورت پر اتفاق کرلیں گے؟نصاب و نظام کی اصلاح اور تشکیل دوسرا مرحلہ ہے۔ پہلا مرحلہ مقاصد و اہداف کا تعین ہے۔مقاصد و اہداف کی روشنی میں نصاب و نظام کا خاکہ تشکیل دینا اہم ہے۔
ہمارے ہاں بد قسمتی سے گزشتہ سات عشروں کے دوران کئی بار خوش نما نعرے لگائے جاتے رہے ‘اہداف و مقاصد کے تعین کے بغیربے سمت اور بے مقصد جد و جہد جاری رکھی گئی ‘جس کا کوئی نتیجہ اخذ نہ ہو سکا۔ اس لئے اب ‘اہداف و مقاصد کا تعین ضروری ہے۔اس حکومت سے قبل تعلیم کے حوالے سے جس سنجیدگی اور عزم کا تقاضا کیا گیا ‘اس میں وزراء ناکام دکھائی دئیے۔ یہ حال اس حکومت کا ہی نہیں‘ سبھی ناکام رہے ۔ ہر نئے دورِ حکومت میں لوگوں کو کسی لایعنی اور بے مقصد بحث میں الجھا دیا جاتا ہے اور دور حکومت گزرنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سب محض وقتی گرد و غبار اور شور شرابہ تھا جو وقت گزرنے کے ساتھ تھم جاتا ہے۔
حرف آخر یہ ہے کہ اگر یکساں نصاب تعلیم کی تیاری کے مراحل میں انسان سازی کی بنیادی ضرورتوں کو پیش نظر رکھا گیا اور اسلامی مدارس کو قدامت پسندی کے ماحول سے نکال کر نئی دنیا سے متعارف نہ کروایاگیا ‘تو کیا بہتری کی امید درست ہوگی؟ان سوالات کے جوابات ابھی باقی ہیں۔مجھے امید ہے کہ قومی نصاب کونسل کے اراکین ‘وفاقی و صوبائی وزرائ‘ اہل دانش علماء دیگر شخصیات کو ٹھنڈے دل سے ان معروضات پر تحمل و برد باری کے ساتھ غور فرمانے کی زحمت کریں گے۔