رواں ماہ کے آغاز میں عراق کے وزیراعظم عبدالمہدی نے مظاہروں میں ہونے والی ہلاکتوں کے بعد دارالحکومت بغداد میں کرفیو کا اعلان کیا‘ جبکہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کو بھی بلاک کر دیا گیا ۔یہ اقدام‘ احتجاج کی تصاویر اور ویڈیوز کی گردش کو روکنے کے لیے کیا گیا ۔عراق میں معاشی بدحالی‘ بے ضابطگیوں اور ناقص سہولیات کے خلاف یکم اکتوبرسے جاری مظاہروں میں ہلاکتوں کی تعداد 100سے تجاوز کرچکی ہے۔
عراق کی صورتحال خراب ہونے کے بعد جغرافیائی قافلوں میں شامل ممالک نے اپنے شہریوں کو فوری عراق چھوڑنے کا حکم دیا ہے‘ جبکہ کویت نے بھی ٹریول ایڈوائزری جاری کی ہے ‘ جس میں شہریوں کو عراق کے سفر میں محتاط رہنے کا کہا گیا ہے۔15 سال کی بدعنوانی کے خلاف عراقی مظاہرین آخر کار ایک اہم مقام پر پہنچ گئے ہیں۔ یہاں تک کہ کچھ سابق حکمران بھی یہی چاہتے ہیں۔یکم اکتوبر کو شدت کے ساتھ شروع ہونے والے احتجاج نے تجربہ کار سیاسی مظاہرین کو بھی حیرت میں ڈال دیاہے۔ ہزاروں افراد پہلے دن باہر نکلے‘تو انہیں منتشر کرنے کیلئے آنسو گیس‘ پانی کی توپیں اور گولیاں چلائی گئیں۔ دوسرے‘ تیسرے اور چوتھے دن کے مظاہروں میں عراقی مسلح سکیورٹی فورسز مظاہرین پر سیدھی گولیاں چلا رہی تھیں۔اس باعث مواصلات کا نظام مفلوج ہوکر رہ گیا۔ سنائپرز کی طرف سے مظاہرین کو نشانہ بنانے کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں۔
حالات یہ ہیں کہ بغداد میں پیلی آنسو گیس اور پیلٹ گنوں کے خول ‘نئے سرے سے تعمیر شدہ روڈاور گلیاں مایوسی کی نمائندگی کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ مظاہرین میں سے بہت سے افراد 13 سے 30 سال کی عمر کے نوجوان ہیں‘ جو 2003ء کے بعد کے دور میں سیاسی طور پرپروان چڑھے اور جن کی ساری زندگی موجودہ حکومت کی تعریف میں گزری۔ یکم اکتوبر کو وزیر اعظم عبد المہدی کے اقتدار سنبھالنے کے تقریبا ً ایک سال کے بعد نشان زد کیا گیا۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ ان کے پاس ابھی تک بنیادی خدمات کا فقدان ہے۔متعدد مظاہرین اس بات پر زور دے رہے ہیںکہ وہ گرین زون سے محفوظ عراقی پارلیمنٹ سے اتنے تنگ آچکے ہیں ‘ اور وہ ایک بڑی حد تک امریکی قواعد و ضوابط کوتسلیم کرتے ہوئے ‘امریکی قابض علاقے میں تعینات سکیورٹی فورسز کے ساتھ تعاون کیلئے ذہنی طور پرتیارہیں۔مظاہرین کے بقول‘ وہ موجودہ کثیر الجہتی پارلیمانی نظام کے مقابلے میں کسی فوجی رہنما کو ترجیح دیں گے۔ عبدالوہاب السعادی نامی ایک جرنیل کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے کہ وہ بطورِ قائد عراق میں حالات کو کنٹرول کرنے کے قابل ہیں۔بہت سی باتیں زبان زد عام ہیں کہ انہوں نے موصل کو آزاد کیا۔کہا جا رہا ہے کہ وہ ایک سچے قوم پرست ہیں اور ان کا ایران یا امریکہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ۔
عراقی تھک چکے ہیں۔یہاں تک کہ کوئی بھی غیر ملکی حکومت کرنے آیا توعراقی انہیں خوش آمدید کہیں گے‘ کیونکہ وہ اکتاہٹ کا شکار ہیں ‘ تاہم بہت سارے مظاہرین کو خوف ہے کہ پرتشدد کریک ڈاؤن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ عراقی حکومت ماضی کے مقابلے میں زیادہ سے زیادہ آمرانہ راستہ اختیار کرنے والی راہ پر گامزن ہے۔ بغداد نسبتاً پرسکون ہو کر اب مسلح افواج کے لشکروں سے بھرے ہوئے شہر میں تبدیل ہوچکا۔ اس کی مرکزی سڑکیں گولیوں کی آوازوں سے گونج رہی ہیں۔ ابتدائی کریک ڈاؤن کے بعدسکیورٹی فورسز نے میڈیا کے دفاتر پر حملہ کیا اور کارکنوں کے گھروں پر چھاپے بھی مارے ہیں۔عبد المہدی کے دور حکومت میں ایک سال کے دوران بہت سارے لوگوں کا خیال ہے کہ عراقی حکومت کے پاس اس کے ناکارہ ہونے کا کوئی عذر نہیں ۔ عراقیوں کی شکایت ہے کہ صدام حسین کے دور سے اب تک کوئی نئی سڑک نہیں بنائی گئی۔ بے روزگاری کا یہ حال ہے کہ ٹیکنیکل اورانجینئرنگ میں ڈگری حاصل کرنے والے نوجوان فارغ التحصیل ہو کر نوکریوں کی بجائے سڑک یا شاہراہوں پر پانی بیچتے ہیں۔ برسوں کی غفلت نے اس نسل کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے‘ جو 2003ء میں صدام حسین کے خاتمے کے بعد بڑی ہوئی تھی۔
عبد المہدی کی حکومت کی چندبڑی کامیابیوں میںسے ایک ٹی والز یا کنکریٹ(دھماکے سے بچاو ٔکی دیواریں)تعمیر کرنا ‘ چوکیوں کو ختم کرنا تھا‘ جو امریکی حملے کے بعد برسوں تک بغداد کی خصوصیات میں شامل تھیں۔ احتجاج کے کچھ دن بعد‘ حالیہ ہٹائے گئے ٹی والز کا بوجھ لے جانے والے ٹرک واپس آگئے اور عام شہریوں کیلئے ایک بار پھر سڑکیں بند کردی گئیں۔ عبدالمہدی کی چھوٹی کامیابی ان دنوں میں پلٹ گئی‘ جب مختلف مسلح دھڑوں نے ملازمت‘ خدمات اور تعلیم کے مطالبے پر مظاہرے پر بے رحمی سے فائرنگ ہوئی۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق‘ بے روزگاری کی شرح 25 فیصد کے لگ بھگ ہے‘ جبکہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کا خیال ہے کہ یہ اس سے کہیں زیادہ ہے۔
الغرض بہت سارے عراقی صحت کی سہولیات اور بنیادی ڈھانچے کی کمی کی شکایت کرتے ہیں۔مظاہروں اور عوام کے غم و غصے کو مدنظر رکھتے ہوئے ‘کئی سوالات ہر ذی شعور کے ذہن میں ہیں ۔کیاعراق کے تیل کے وسائل سیاست دانوں کے ہاتھوں میں چلے گئے ؟ کیاعراق میں نئی نسل کے لیے کچھ نہیں بچا؟کیا عوام مزید انتظار کرسکتے ہیں؟ کیا پچھلے 15 برسوں میں اب تک جو کچھ ہوا ‘عوام اس پر راضی ہیں ؟ کیااربوں ڈالر جو خرچ ہوئے‘ ان کا حاصل صفر ہے ؟کیا اربوں ڈالر سیاست دانوں کی جیبوں میں گئے ؟ان سوالات کے جوابات عراقی عوام مظاہروں کی شکل میں دے رہی ہے ۔