توانائی کسی بھی معیشت کے جسم میں دوڑتے ہوئے لہو کی حیثیت رکھتی ہے‘ جس کی فراہمی کے بغیر کوئی بھی ملک ترقی کی منازل طے نہیں کر سکتا۔ توانائی کے حصول کیلئے دستیاب وسائل سے استفادہ کرنا ‘ بڑی حد تک ٹیکنالوجی کا مرہونِ منت ہے۔سائنسی دنیا تقریباً 1930ء سے توانائی کا بحران ختم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے اور تاریخی اعتبار سے مشہور جرمن موجد ڈاکٹر فرانس لاواسزیک نے سب سے پہلے ایک ایسا منصوبہ پیش کیا تھا‘ جس کے تحت ان کے خیال میں بہت آسانی سے اور بہت جلد توانائی کا بحران حل کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے اپنے تحقیقی مقالے میں لکھا کہ ہوا کی طاقت ( ونڈ پاور) جس پر کوئی لاگت بھی نہیں آتی‘ بڑے پیمانے پر بجلی پیدا کرنے کے کام آسکتی ہے۔
عالمی انسانی برادری گزشتہ عشروں میں اناج‘ خوردنی تیل اور پٹرول و گیس کی بڑھتی قیمتوں کے بحران سے دوچار رہی ہے۔اس بات سے دھیرے دھیرے پردہ اٹھ رہا ہے۔ امریکی صدر جارج بش نے اپنے دورِ حکومت میں کہا تھا کہ ہندوستانیوں کے زیادہ کھانے کی وجہ سے موجودہ عالمی غذائی بحران پیدا ہواہے اور ان کے وزیر نے کہا کہ بھارت اور چین کی بڑھتی توانائی کی ضرورتوں نے دراصل دنیا بھر میں تیل کی قیمتوں میں آگ لگائی ہے۔ امریکی حکومت اوران کے میڈیا نے دنیا بھر میں یہ تاثر پیدا کیا‘ خصوصاً تیل کے معاملہ میں انہوں نے اپنے تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم OPECکے حوالے سے سعودی عرب‘ ایران وغیرہ کو بھی نشانہ بنا کر انہیں مجرم بنانے کی کوشش کی ۔سعودی عرب‘ امریکہ کا اہم اتحادی بھی ہے ‘مگر ان کے تعلقات میں امریکی بیانات کی وجہ سے تلخی کئی بار دیکھی گئی‘تاہم جھوٹ کبھی بھی چھپایا نہیں جاسکتا ہے‘ جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے کے مصداق یکے بعد دیگرے‘ خود امریکہ کی سرکاری تحقیقات اور انکشافات میں مانا گیا کہ غذائی بحران‘ تیل کا بحران اور ماحولیات کا بحران‘ آپس میں مربوط بھی ہیں اور ان تمام بحرانوں کیلئے سب سے بڑی ذمہ داری خود جارج بش کی انتظامیہ کی تھی۔
کہا یہ جاتا رہا کہ بھارت اور چین کی صنعتی ترقی کے نتیجہ میں تیل کے دام بڑھ رہے ہیں‘ جبکہ سپلائی بڑھ نہیں رہی ‘ اس کے جواب میں سعودی وزیر برائے پٹرولیم مسٹر نعیمی نے اور خود شاہ عبداللہ نے کہا کہ عالمی بازار میں ضرورت کے مطابق‘ تیل موجود ہے‘ مگر اس مارکیٹ میں سٹہ بازی ہورہی ہے‘جس کی وجہ سے داموں میں بڑھوتری ہوئی ہے‘ تاہم امریکی انتظامیہ اس بات کو ماننے کو تیار نہ تھی۔اس کا موقف تھاکہ نہیں اس سٹہ بازی کا داموں کی بڑھوتری پر اثر زیادہ سے زیادہ 3% ہے بقیہ کیلئے بھارت ‘ چین اور رسد کی کمی کیلئے OPEC ذمہ دار ہے۔اب‘ امریکا کا توانائی میں خود انحصاری کے حصول کا ہدف پورا ہوتا نظر آرہا ہے۔دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد عشروں تک امریکا کی تیل اور گیس کی پیداوار میں کمی دیکھنے میں آئی تھی‘ لیکن شیل انقلاب نے پیداوار میں دھماکا خیز اضافہ کیا۔ تازہ اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ رواں سال کی چوتھی سہ ماہی میں پیداوار کی سطح طلب سے بڑھ گئی ہے۔
واشنگٹن اس حیران کن پیش رفت کا کریڈٹ لے رہا ہے اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خاص طور پر یہ دلیل دی ہے کہ اس نئی خودانحصاری سے شرق ِاوسط سے تزویراتی انخلا کا جواز عطا ہوا ہے‘جیسا کہ انہوں نے شام‘ افغانستان اور عراق سے فوجوں کے انخلا کا اعلان کیا ہے۔ستمبر میں سعودی آرامکو کی تیل تنصیبات پر ڈرون حملوں نے یہ باور کرادیا کہ امریکا اور عالمی معیشت کو تیل کی رسد متاثر ہونے کے خطرات سے کوئی استثنیٰ حاصل نہیں ۔واشنگٹن کی توانائی میں آزادی کے حصول کے لیے کوشاں ہے کہ امریکا کا تیل کی سپلائی پر انحصار کم کیا جائے۔ مقامی پیداوار میں اضافہ‘ بالخصوص تیل اور گیس کے نئے ذخائر کی دریافت سے امریکا کی درآمدی ضروریات میں کمی واقع ہوئی ہے‘ جبکہ خالص برآمدات بھی ایک حقیقت ہیں۔امریکا کی توانائی اطلاعاتی ایجنسی (EIA) کی رپورٹ کے مطابق‘ 2018ء میں امریکا کی خام تیل کی یومیہ پیداوار ایک کروڑ 77 لاکھ (1707) بیرل تھی‘ جبکہ اس کی ملکی کھپت دو کروڑ پانچ لاکھ بیرل یومیہ تھی‘ تاہم یہ توازن مختصر مدت کے لیے برقرار رہ سکتا ہے‘مستقل حل نہیں ۔عالمی سطح پر تیل اور گیس کے شعبے میں سرمایہ کاری‘اوپیک کے
پیداواری سمجھوتوں‘امریکا کی ایران پر عائد کردہ پابندیوں اور مقامی اقتصادی عوامل‘ تمام عناصر اس توازن کو ڈرامائی طور پر تبدیل کرسکتے ہیں۔مجموعی طور پر خالص برآمدات کے اعداد وشمار اس حقیقت کو چُھپا رہے ہیں کہ امریکا کی خالص برآمد کنندہ ملک کی پوزیشن کے پیچھے کارفرما محرکات مقامی کھپت کے لیے بہت زیادہ ہلکا تیل پیدا کریں گے۔
اس سچ سے منہ نہیں موڑا جا سکتاکہ اس کو دوسرے معیار کے تیل یا پیداوار کی اب بھی ضرورت ہے۔امریکا کی خلیج میکسیکو اور جنوبی ریاستوں میں تیل پیدا کرنے والی کمپنیوں کیلئے تجارتی طور پر یہ زیادہ منفعت بخش ہے کہ وہ اپنی پٹرولیم کی مصنوعات کو امریکا کی دوسری مارکیٹوں میں حمل ونقل (ٹرانسپورٹ) کی بجائے دوسرے ملکوں کو برآمد کریں۔امریکا کا تیل کا شعبہ سرمائے کے لحاظ سے سخت دباؤ میں ہے۔ یہ شعبہ بھاری مقروض بھی ہے‘اسے نرخوں میں کمی کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑتا ہے۔اس کے ساتھ ہی ساتھ امریکی کمپنیاں تیل بھاری مقدار میں کینیڈا یاشرق ِ اوسط سے خرید رہی ہیں‘تاکہ خاص ضرورت کے وقت مانگ کو پورا کیا جاسکے۔ توانائی میں خود انحصاری یا آزادی محض داخلی پیداوار میں اضافے سے حاصل نہیں کی جاسکتی۔ ذخیرہ اندوز شاید یہ دلیل دے سکتے ہیں کہ اس مقصد کو تیل کی مانگ میں کمی سے پورا کیا جاسکتا ہے‘ مگر عالمی سطح پر یہ دلیل کارگر ثابت نہیں ہو سکتی۔ ضرورت ہے کہ ٹیکنالوجی کو فروغ دیا جائے او راتنا کام کیا جائے کہ روایتی طریقے سے پیدا ہونے والی بجلی‘ تھرمل پاور بجلی سے کہیں سستی ہو۔